سارہ بشارت گیلانی
محفلین
بہار آئی تو اک تتلی حسیں، اک گلستاں پہنچی
حسیں اس گلستاں میں ایک گل کے دل پہ جا بیٹهی
بہت رنگین تهی تتلی، بڑا ہی شوخ سا گل تها
وہ دونوں رنگ و بو کی رت میں جیسے کهو ہی بیٹهے تهے
یونہی پهر روز و شب بیتے
پهر اک دن گل نے اس رنگین تتلی سے کہا جاناں
سنو تم سوچ لو پهر سے! سماں جو آج ہے ایسا یہ کل کو یوں نہیں ہوگا
مری خوشبو مرا یہ رنگ کل ایسا نہیں ہوگا
تمہارے بن میں جی سکتا نہیں یہ بات تو سچ ہے
مگر موسم بدلتا ہے، تو سنگ سب ہی بدلتا ہے
کہو کیا تم خزاں میں مجھ کو تنہا چھوڑ جاو گی؟
مری خوشبو مرا رنگ نہ ہو تو سنگ چھوڑ جاو گی؟
کہا تتلی نے, گل میرے! مجهے دل پہ جو تو نے اپنے ہے ایسے بٹها رکها!
ترے سنگ ان بہاراں میں جو میرے روز و شب بیتے. انہیں کیسے بهلاوں گی؟
تجهے میں چھوڑ کر یا بهول کر کیا جی بهی پاوں گی؟
تمہارے سنگ یہ رشتہ مرا اب عمر بهر کا ہے.
میں یہ قسمیں نبهاوں گی
تو چاہے جو بهی ہو موسم
تیرے سنگ ہی بتاوں گی..
اسے گل نے لیا آغوش میں اور پهر ہوا بدلی..
وہ جس موسم کا کہتا تها وہ موسم آگیا آخر..
وہ گل مرجها گیا آخر..
نہ ہی رنگ تها، نہ تو خوشبو نہ ہی شوخی رہی اس میں
مگر تتلی نہ گهبرائی
اسے کہتی رہیں سکهیاں کہ کیسی منچلی ہے تو!
ہمارے سنگ آ تو بهی یہاں سے بهاگ چل پگلی!
ترے گل کے گئے اب دن!
کیا تو بهی جیتے جی سنگ اسکے خود کو مار ڈالے گی؟
یہ دن کیسے گزارے گی!
فلک نے بهی ستم ڈهائے ہوا نے آزمایا بهی
خزاں گزری تو سردی نے پروں کو اسکے دهو ڈالا!
ہر اک دن زندگی و موت کی تهی کشمکش میں وہ!
" مرے گل سے مرا وعدہ تها، میں اسکو نبهاوں گی، کہیں بهی میں نہ جاوں گی!"
محبت کے اسی وعدے نے نہ مرنے دیا اسکو..
سو پهر سے فصل گل آئی!
نئی کچه کونپلیں چٹکیں گلوں میں جان بهی آئی!
سو اس دن من چلی تتلی کی خوشیوں کی تو حد نہ تهی..
جو اپنے گل کے رنگ و بو اس نے جاگتا دیکها
چہک کر اس سے وہ بولی،" یہ دیکهو میں یہیں پہ ہوں! کوئی جب دوسرا نہ تها تمہارے سنگ میں ہی تهی، قسم کهائی تهی جو میں نے اسے میں نے نبهایا ہے.
کہا تها جو بهی تم سے وہ ہی میں نے کر دکهایا ہے!"
اسے گل تک رہا تها یوں کہ جیسے جانتا نہ ہو..
کہ جیسے اجنبی ہو جسکو وہ پہچانتا نہ ہو..
" مری تتلی تو ایسی تهی دهنک کے رنگ تهے اس میں! بڑی چنچل بڑی نٹ کهٹ بڑی ہی خوبرو تهی وہ! ترا نہ رنگ ویسا ہے ترا نہ ڈهنگ ویسا ہے.. مجهے دیکهو ارے تتلی میں کتنا خوبصورت ہوں!
حسیں تو ہوں، جواں بهی ہوں!
مجهے اپنے ہی جیسی اک حسیں تتلی ہی بهائے گی!
مجهے معلوم ہے تتلی وہ مجھ کو مل ہی جائے گی!"
یہ کہہ کر پهول نے جهٹکے سے تتلی کو ہٹا پهینکا..
جو اس کا دم نکلتا تها تو اس نے تب یہ کیا دیکها..
بہار ائی، نئی تتلی حسیں اس گلستاں پہنچی..
وہاں آ کے اسی گل کے وہ دل پہ ایسے جا بیٹھی..
کبهی جیسے یہ بیٹهی تهی...
حسیں اس گلستاں میں ایک گل کے دل پہ جا بیٹهی
بہت رنگین تهی تتلی، بڑا ہی شوخ سا گل تها
وہ دونوں رنگ و بو کی رت میں جیسے کهو ہی بیٹهے تهے
یونہی پهر روز و شب بیتے
پهر اک دن گل نے اس رنگین تتلی سے کہا جاناں
سنو تم سوچ لو پهر سے! سماں جو آج ہے ایسا یہ کل کو یوں نہیں ہوگا
مری خوشبو مرا یہ رنگ کل ایسا نہیں ہوگا
تمہارے بن میں جی سکتا نہیں یہ بات تو سچ ہے
مگر موسم بدلتا ہے، تو سنگ سب ہی بدلتا ہے
کہو کیا تم خزاں میں مجھ کو تنہا چھوڑ جاو گی؟
مری خوشبو مرا رنگ نہ ہو تو سنگ چھوڑ جاو گی؟
کہا تتلی نے, گل میرے! مجهے دل پہ جو تو نے اپنے ہے ایسے بٹها رکها!
ترے سنگ ان بہاراں میں جو میرے روز و شب بیتے. انہیں کیسے بهلاوں گی؟
تجهے میں چھوڑ کر یا بهول کر کیا جی بهی پاوں گی؟
تمہارے سنگ یہ رشتہ مرا اب عمر بهر کا ہے.
میں یہ قسمیں نبهاوں گی
تو چاہے جو بهی ہو موسم
تیرے سنگ ہی بتاوں گی..
اسے گل نے لیا آغوش میں اور پهر ہوا بدلی..
وہ جس موسم کا کہتا تها وہ موسم آگیا آخر..
وہ گل مرجها گیا آخر..
نہ ہی رنگ تها، نہ تو خوشبو نہ ہی شوخی رہی اس میں
مگر تتلی نہ گهبرائی
اسے کہتی رہیں سکهیاں کہ کیسی منچلی ہے تو!
ہمارے سنگ آ تو بهی یہاں سے بهاگ چل پگلی!
ترے گل کے گئے اب دن!
کیا تو بهی جیتے جی سنگ اسکے خود کو مار ڈالے گی؟
یہ دن کیسے گزارے گی!
فلک نے بهی ستم ڈهائے ہوا نے آزمایا بهی
خزاں گزری تو سردی نے پروں کو اسکے دهو ڈالا!
ہر اک دن زندگی و موت کی تهی کشمکش میں وہ!
" مرے گل سے مرا وعدہ تها، میں اسکو نبهاوں گی، کہیں بهی میں نہ جاوں گی!"
محبت کے اسی وعدے نے نہ مرنے دیا اسکو..
سو پهر سے فصل گل آئی!
نئی کچه کونپلیں چٹکیں گلوں میں جان بهی آئی!
سو اس دن من چلی تتلی کی خوشیوں کی تو حد نہ تهی..
جو اپنے گل کے رنگ و بو اس نے جاگتا دیکها
چہک کر اس سے وہ بولی،" یہ دیکهو میں یہیں پہ ہوں! کوئی جب دوسرا نہ تها تمہارے سنگ میں ہی تهی، قسم کهائی تهی جو میں نے اسے میں نے نبهایا ہے.
کہا تها جو بهی تم سے وہ ہی میں نے کر دکهایا ہے!"
اسے گل تک رہا تها یوں کہ جیسے جانتا نہ ہو..
کہ جیسے اجنبی ہو جسکو وہ پہچانتا نہ ہو..
" مری تتلی تو ایسی تهی دهنک کے رنگ تهے اس میں! بڑی چنچل بڑی نٹ کهٹ بڑی ہی خوبرو تهی وہ! ترا نہ رنگ ویسا ہے ترا نہ ڈهنگ ویسا ہے.. مجهے دیکهو ارے تتلی میں کتنا خوبصورت ہوں!
حسیں تو ہوں، جواں بهی ہوں!
مجهے اپنے ہی جیسی اک حسیں تتلی ہی بهائے گی!
مجهے معلوم ہے تتلی وہ مجھ کو مل ہی جائے گی!"
یہ کہہ کر پهول نے جهٹکے سے تتلی کو ہٹا پهینکا..
جو اس کا دم نکلتا تها تو اس نے تب یہ کیا دیکها..
بہار ائی، نئی تتلی حسیں اس گلستاں پہنچی..
وہاں آ کے اسی گل کے وہ دل پہ ایسے جا بیٹھی..
کبهی جیسے یہ بیٹهی تهی...