فرخ منظور
لائبریرین
ایک گدھا مشاعرے میں
(اعتبار ساجد)
اِک محلّے میں بپا تھی محفلِ شعر و سخن
اپنی اپنی بولیاں سب بولتے تھے اہلِ فن
ہائے ہائے ، مار ڈالا، اُف خدا کا شور تھا
ہلّا گلّا ہو رہا تھا واہ واہ کا زور تھا
ناگہاں یہ شور سُن کر ایک آوارہ گدھا
آسمانِ وقت سے ٹوٹا ہوا تارہ گدھا
اپنے دونوں کان لمبے کر کے چوکنّا ہوا
دم دبا کر اپنی ٹانگوں میں اُدھر کو چل دیا
شعر جب اُس نے سُنے اک شاعر بیمار کے
بڑھ گیا پنڈال کی جانب دولتی جھاڑ کے
اندر آتے ہی اُٹھا کر تھوتھنی سوئے فلک
اور دکھلا کر رُخِ زیبا کی اک تازہ جھلک
کھینچ کر اک آہِ سرد و گرم یوں بولا گدھا
”آ گیا ہے آپ کی محفل میں اِک بھولا گدھا
ہے تو گستاخی مگر اے سامعینِ محترم !
لے کے آئی ہے مجھے اِس در پہ امیّدِ کرم
گو مرے اجداد میں کوئی نہ تھا شاعر، ادیب
بلکہ یوں کہیے کہ سب کے سب تھے ازلی بدنصیب
اتفاقاً تھے محلے میں ہمارے اک طبیب
وہ قریبِ شاعری تھے اور میں ان کے قریب
اِن کی سُن سُن کر مجھے بھی گنگنانا آ گیا
شاعری کا بھوت میری کھوپڑی پر چھا گیا
واقفِ سوزو گدازِ عشقِ جاناں ہو گیا
ان کے نسخے سونگھ کر میں بھی غزل خواں ہو گیا
اس پہ بھی اہل ہنر میں اپنی شنوائی نہ تھی
دُور تک کوئی سبیل بزم آرائی نہ تھی
یہ تو مت کہیے طبیعت فن کی شیدائی نہ تھی
ہاں مگر ناچیز کو مطلوب رسوائی نہ تھی
داد کا جو شور پہنچا آج میرے کان میں
آ گیا یہ ذرہّ ناچیز اس میدان میں
میں نے بھی تازہ کہے ہیں چند اشعارِ غزل
گر اجازت ہو تو کر دوں پیش اسمارِ غزل؟“
شاعروں نے جب سُنا یوں اک گدھے کو بولتے
رہ گئے سب دم بخود اپنی بیاضیں کھولتے
منہ کھلے ، آنکھیں چڑھیں، ماتھوں پہ بل آنے لگے
جو رقیق القلب تھے بے ہوش ہو جانے لگے
ایک شاعر ہائے اللہ کہہ کے چکرا کر گرا
ایک شاعر اوندھے منہ ڈائس سے گھبرا کر گرا
ایک شاعر دوسرے شاعر سے ٹکرا کر گرا
ایک شاعر عین شمعِ بزم پر جا کر گرا
گلشنِ فن ، نذرِ ابرو باد ہو کر رہ گیا
نقشئہ شعر و سخن برباد ہو کر رہ گیا
میزباں گرجے کہ میرا کب تھا ہمسایا گدھا
کس کی سازش ہے، یہاں پر کون لے آیا گدھا؟
ہو نہ ہو یہ دشمنانِ فن کا رشتہ دار ہے
یا حریفانِ سخن کا حاشیہ بردار ہے!
اے خرِ بے پیر! اب اپنی حقیقت کھول دے
جو بھی کچھ ہے تیرے دل میں اپنے منہ سے بول دے
داغ کا شاگرد ہے یا جانشینِ میر ہے
خاک پائے مصحفی ہے یا خرِبے پیر ہے
کوئی غالب سے تعلق؟ کچھ جگر سے واسطہ؟
یا شہنشاہِ بہادر شاہ ظفر سے واسطہ؟
گر نہیں ان شاعرانِ محترم سے واسطہ
کس لیے پھر جوڑنے آیا ہے ہم سے واسطہ؟
شاعرانِ عصر ہیں ہم لوگ ’شعرستان‘ میں
اک گدھے کو ہم نہ آنے دیں گے اس میدان میں
شاعروں نے یک زباں ہو کر کہا : بالکل بجا
آپ نے جو کچھ کہا بروقت اور اچھا کہا
ازسرِ نو اہتمامِ شعر خوانی کیجیے....
اور ملیامیٹ اِس خر کی کہانی کیجئے
سخت وحشت ہو رہی ہے اب تو اِس مدقوق سے
ہو سکے تو اس کو رخصت کیجئے بندوق سے
دیکھ کر سہمی ہوئی نظروں سے محفل کی فضا
سر جُھکا کر انکساری سے گدھا کہنے لگا
اے سلاطین سخن! اے دعویدارانِ سخن!
درمیانِ شاعراں ایں ذرہ ناچیز من
میں کہاں اور شاعری کا منصبِ عالی کہاں
ایک نابینا کہاں اور شامِ دیوالی کہاں
اس قدر دیدہ دلیری سے جہاں میں کام لے
اک گدھے کی کیا جسارت شعر و فن کا نام لے
رُتبہ و نام و نسب کی جنگ جاری ہو جہاں
اک گدھے کی کون کرتا ہے پذیرائی وہاں
آپ ہی کو ہو مبارک ہر مقام شاعری
ہم گدھوں کے واسطے کافی ہے نامِ شاعری
گھاس چر لیں گے بجائے شعر فرمانے کے ہم
آپ کی محفل میں ہرگز اب نہیں آنے کے ہم
آج تو ناکام ہو کر بزم سے جائیں گے ہم
پھر کسی محفل میں سب کی ہجو لکھ لائیں گے ہم
پھر نہ کہیے گا خرِبے پیر و بے بنیاد ہوں
میں طبیبِ خاص کے شاگرد کا استاد ہوں
اتنا کہہ کر خاص لے میں راگ درباری کے ساتھ
چل دیا باہر کی جانب برق رفتاری کے ساتھ
(اعتبار ساجد)
اِک محلّے میں بپا تھی محفلِ شعر و سخن
اپنی اپنی بولیاں سب بولتے تھے اہلِ فن
ہائے ہائے ، مار ڈالا، اُف خدا کا شور تھا
ہلّا گلّا ہو رہا تھا واہ واہ کا زور تھا
ناگہاں یہ شور سُن کر ایک آوارہ گدھا
آسمانِ وقت سے ٹوٹا ہوا تارہ گدھا
اپنے دونوں کان لمبے کر کے چوکنّا ہوا
دم دبا کر اپنی ٹانگوں میں اُدھر کو چل دیا
شعر جب اُس نے سُنے اک شاعر بیمار کے
بڑھ گیا پنڈال کی جانب دولتی جھاڑ کے
اندر آتے ہی اُٹھا کر تھوتھنی سوئے فلک
اور دکھلا کر رُخِ زیبا کی اک تازہ جھلک
کھینچ کر اک آہِ سرد و گرم یوں بولا گدھا
”آ گیا ہے آپ کی محفل میں اِک بھولا گدھا
ہے تو گستاخی مگر اے سامعینِ محترم !
لے کے آئی ہے مجھے اِس در پہ امیّدِ کرم
گو مرے اجداد میں کوئی نہ تھا شاعر، ادیب
بلکہ یوں کہیے کہ سب کے سب تھے ازلی بدنصیب
اتفاقاً تھے محلے میں ہمارے اک طبیب
وہ قریبِ شاعری تھے اور میں ان کے قریب
اِن کی سُن سُن کر مجھے بھی گنگنانا آ گیا
شاعری کا بھوت میری کھوپڑی پر چھا گیا
واقفِ سوزو گدازِ عشقِ جاناں ہو گیا
ان کے نسخے سونگھ کر میں بھی غزل خواں ہو گیا
اس پہ بھی اہل ہنر میں اپنی شنوائی نہ تھی
دُور تک کوئی سبیل بزم آرائی نہ تھی
یہ تو مت کہیے طبیعت فن کی شیدائی نہ تھی
ہاں مگر ناچیز کو مطلوب رسوائی نہ تھی
داد کا جو شور پہنچا آج میرے کان میں
آ گیا یہ ذرہّ ناچیز اس میدان میں
میں نے بھی تازہ کہے ہیں چند اشعارِ غزل
گر اجازت ہو تو کر دوں پیش اسمارِ غزل؟“
شاعروں نے جب سُنا یوں اک گدھے کو بولتے
رہ گئے سب دم بخود اپنی بیاضیں کھولتے
منہ کھلے ، آنکھیں چڑھیں، ماتھوں پہ بل آنے لگے
جو رقیق القلب تھے بے ہوش ہو جانے لگے
ایک شاعر ہائے اللہ کہہ کے چکرا کر گرا
ایک شاعر اوندھے منہ ڈائس سے گھبرا کر گرا
ایک شاعر دوسرے شاعر سے ٹکرا کر گرا
ایک شاعر عین شمعِ بزم پر جا کر گرا
گلشنِ فن ، نذرِ ابرو باد ہو کر رہ گیا
نقشئہ شعر و سخن برباد ہو کر رہ گیا
میزباں گرجے کہ میرا کب تھا ہمسایا گدھا
کس کی سازش ہے، یہاں پر کون لے آیا گدھا؟
ہو نہ ہو یہ دشمنانِ فن کا رشتہ دار ہے
یا حریفانِ سخن کا حاشیہ بردار ہے!
اے خرِ بے پیر! اب اپنی حقیقت کھول دے
جو بھی کچھ ہے تیرے دل میں اپنے منہ سے بول دے
داغ کا شاگرد ہے یا جانشینِ میر ہے
خاک پائے مصحفی ہے یا خرِبے پیر ہے
کوئی غالب سے تعلق؟ کچھ جگر سے واسطہ؟
یا شہنشاہِ بہادر شاہ ظفر سے واسطہ؟
گر نہیں ان شاعرانِ محترم سے واسطہ
کس لیے پھر جوڑنے آیا ہے ہم سے واسطہ؟
شاعرانِ عصر ہیں ہم لوگ ’شعرستان‘ میں
اک گدھے کو ہم نہ آنے دیں گے اس میدان میں
شاعروں نے یک زباں ہو کر کہا : بالکل بجا
آپ نے جو کچھ کہا بروقت اور اچھا کہا
ازسرِ نو اہتمامِ شعر خوانی کیجیے....
اور ملیامیٹ اِس خر کی کہانی کیجئے
سخت وحشت ہو رہی ہے اب تو اِس مدقوق سے
ہو سکے تو اس کو رخصت کیجئے بندوق سے
دیکھ کر سہمی ہوئی نظروں سے محفل کی فضا
سر جُھکا کر انکساری سے گدھا کہنے لگا
اے سلاطین سخن! اے دعویدارانِ سخن!
درمیانِ شاعراں ایں ذرہ ناچیز من
میں کہاں اور شاعری کا منصبِ عالی کہاں
ایک نابینا کہاں اور شامِ دیوالی کہاں
اس قدر دیدہ دلیری سے جہاں میں کام لے
اک گدھے کی کیا جسارت شعر و فن کا نام لے
رُتبہ و نام و نسب کی جنگ جاری ہو جہاں
اک گدھے کی کون کرتا ہے پذیرائی وہاں
آپ ہی کو ہو مبارک ہر مقام شاعری
ہم گدھوں کے واسطے کافی ہے نامِ شاعری
گھاس چر لیں گے بجائے شعر فرمانے کے ہم
آپ کی محفل میں ہرگز اب نہیں آنے کے ہم
آج تو ناکام ہو کر بزم سے جائیں گے ہم
پھر کسی محفل میں سب کی ہجو لکھ لائیں گے ہم
پھر نہ کہیے گا خرِبے پیر و بے بنیاد ہوں
میں طبیبِ خاص کے شاگرد کا استاد ہوں
اتنا کہہ کر خاص لے میں راگ درباری کے ساتھ
چل دیا باہر کی جانب برق رفتاری کے ساتھ