وہاب اعجاز خان
محفلین
ٹی ایس ایلیٹ کا کہنا ہے کہ نقاد کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ گمنام شاعروں کے کلام کا بھی جائزہ لے اور انھیں منظر عام پر لائے۔اس طرح بہت سے ایسے نمونے جو دنیا کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیں لوگوں کی نظروںکے سامنے آجاتے ہیں۔ مقبول عامر کا شمار سرحد کے اچھے غزل گو شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی غزل پیش خدمت ہے۔
غزل
رات بیٹھا تھا میرے پاس خیالوں میں کوئی
انگلیاں پھیر رہا تھا میرے بالوںمیں کوئی
دیدہء تر نے بڑی دیر میں پہچانا اسے
روپ کھو بیٹھا ہے دو چار ہی سالوں میں کوئی
غمزدہ شب کی گلو گیر ہوا کہتی ہے
یاد کرتا ہے مجھے چاہنے والوں میں کوئی
میں شبِ شہر میں تھا اور ادھر گاوں میں
جلتی شمعیں لیے پھرتا رہا گالوں میں کوئی
ہم اندھیروں کے مکیں ان کو نظر آ نہ سکے
کس قدر محو رہا اپنے اجالوں میں کوئی
ہجر نے اتنا ستایا ہے کہ جی چاہتا ہے
کاش مل جائے تیرے چاہنے والوں میں کوئی
غزل
رات بیٹھا تھا میرے پاس خیالوں میں کوئی
انگلیاں پھیر رہا تھا میرے بالوںمیں کوئی
دیدہء تر نے بڑی دیر میں پہچانا اسے
روپ کھو بیٹھا ہے دو چار ہی سالوں میں کوئی
غمزدہ شب کی گلو گیر ہوا کہتی ہے
یاد کرتا ہے مجھے چاہنے والوں میں کوئی
میں شبِ شہر میں تھا اور ادھر گاوں میں
جلتی شمعیں لیے پھرتا رہا گالوں میں کوئی
ہم اندھیروں کے مکیں ان کو نظر آ نہ سکے
کس قدر محو رہا اپنے اجالوں میں کوئی
ہجر نے اتنا ستایا ہے کہ جی چاہتا ہے
کاش مل جائے تیرے چاہنے والوں میں کوئی