محمد اظہر نذیر
محفلین
اُس سے ملنا کمال ہو جائے
روئے سادہ، گلال ہو جائے
دیکھ کر اُس کو الف گھوڑے کی
ہائے دُلکی سی چال ہو جائے
کیا کریں خیر ہو گا مستقبل
تھوڑا بہتر یہ حال ہو جائے
روز ملتے ہو کیوں رقیبوں سے
آج میرا خیال ہو جائے
دولت حسن، بُخل کیسا ہے؟
آ کہ ڈھیلا یہ مال ہو جائے
روک سکتے نہیں بُرائی کو
کچھ تو آو ملال ہو جائے
حالت ہجر، کیا کہوں تُجھ کو
خواب میں ہی وصال ہو جائے
وائے قسمت غریب کی اظہر
نوکری کر، کہ دال ہو جائے