محمد اظہر نذیر
محفلین
تُم
تُم مری سوچ پہ بیٹھی ہوئی اک تتلی ہو
کتنی نازک سی ہو، رنگین سی ہو پیاری ہو
مجھ کو اُلجھائے سے رکھتے تھے تصور کے سراب
تُم سے پہلے تو کھلے تھے نہ خیالوں میں گُلاب
اب سکوں میں ہوں مرے ذہن پہ تُم طاری ہو
تُم مری سوچ پہ بیٹھی ہوئی اک تتلی ہو
کتنی نازک سی ہو، رنگین سی ہو پیاری ہو
پوچھنا کیا ہے؟ معطر سی چلی آیا کرو
چاہتا ہوں کہ تُم اکثر ہی چلی آیا کرو
فیض ہی فیض کا چشمہ یہ صدا جاری ہو
تُم مری سوچ پہ بیٹھی ہوئی اک تتلی ہو
کتنی نازک سی ہو، رنگین سی ہو پیاری ہو
ہاں تُجھے چھو کہ میں میلا تو نہیں کر سکتا
رنگ بکھریں گے اگر پھر سے نہیں بھر سکتا
تُجھ کو وہ قید کرے عقل سے جو عاری ہو
تُم مری سوچ پہ بیٹھی ہوئی اک تتلی ہو
کتنی نازک سی ہو، رنگین سی ہو پیاری ہو