ایک ہلکی پھُلکی سی نطم، تنقید، تبصرہ اور رہنمائی کیلئے،'' تُم''


تُم

تُم مری سوچ پہ بیٹھی ہوئی اک تتلی ہو
کتنی نازک سی ہو، رنگین سی ہو پیاری ہو

مجھ کو اُلجھائے سے رکھتے تھے تصور کے سراب
تُم سے پہلے تو کھلے تھے نہ خیالوں میں گُلاب
اب سکوں میں ہوں مرے ذہن پہ تُم طاری ہو
تُم مری سوچ پہ بیٹھی ہوئی اک تتلی ہو
کتنی نازک سی ہو، رنگین سی ہو پیاری ہو

پوچھنا کیا ہے؟ معطر سی چلی آیا کرو
چاہتا ہوں کہ تُم اکثر ہی چلی آیا کرو
فیض ہی فیض کا چشمہ یہ صدا جاری ہو
تُم مری سوچ پہ بیٹھی ہوئی اک تتلی ہو
کتنی نازک سی ہو، رنگین سی ہو پیاری ہو

ہاں تُجھے چھو کہ میں میلا تو نہیں کر سکتا
رنگ بکھریں گے اگر پھر سے نہیں بھر سکتا
تُجھ کو وہ قید کرے عقل سے جو عاری ہو
تُم مری سوچ پہ بیٹھی ہوئی اک تتلی ہو
کتنی نازک سی ہو، رنگین سی ہو پیاری ہو​
 

الف عین

لائبریرین
خوب نظم ہے۔
تُم مری سوچ پہ بیٹھی ہوئی اک تتلی ہو
کتنی نازک سی ہو، رنگین سی ہو پیاری ہو
ٹیپ کا شعر ہے، اس کو اور بھرپور ہونا تھا۔ دوسرا مصرع بھرتی کا لگ رہا ہے۔ زبان و بیان کے لحاظ سے بھی یہی مصرع یوں ہونا چاہئے
کتنی رنگین ہو، پیاری سی ہو، نازک سی ہو
یا تو تینوں جگہ ’سی‘ ہو، یا کہیں نہ ہو، یا اگر ایک یا دو ہی جگہ ہو تو اس کی صحیح نشست آخر میں ہونی چاہئے۔
اقی درست سوائے دو املا کی غلطیوں کے۔
سدا، صدا نہیں
چھو کے، چھو کہ نہیں
 
خوب نظم ہے۔
تُم مری سوچ پہ بیٹھی ہوئی اک تتلی ہو
کتنی نازک سی ہو، رنگین سی ہو پیاری ہو
ٹیپ کا شعر ہے، اس کو اور بھرپور ہونا تھا۔ دوسرا مصرع بھرتی کا لگ رہا ہے۔ زبان و بیان کے لحاظ سے بھی یہی مصرع یوں ہونا چاہئے
کتنی رنگین ہو، پیاری سی ہو، نازک سی ہو
یا تو تینوں جگہ ’سی‘ ہو، یا کہیں نہ ہو، یا اگر ایک یا دو ہی جگہ ہو تو اس کی صحیح نشست آخر میں ہونی چاہئے۔
اقی درست سوائے دو املا کی غلطیوں کے۔
سدا، صدا نہیں
چھو کے، چھو کہ نہیں
کتنی رنگین ہو ، نازُک سی ہو اور پیاری ہو
یہ کیسا رہے گا جناب اُستاد



تُم


تُم مری سوچ پہ بیٹھی ہوئی اک تتلی ہو
کتنی رنگین ہو، نازُک سی ہو اور پیاری ہو

مجھ کو اُلجھائے سے رکھتے تھے تصور کے سراب
تُم سے پہلے تو کھلے تھے نہ خیالوں میں گُلاب
اب سکوں میں ہوں مرے ذہن پہ تُم طاری ہو
کتنی رنگین ہو، نازُک سی ہو اور پیاری ہو

پوچھنا کیا ہے؟ معطر سی چلی آیا کرو
چاہتا ہوں کہ تُم اکثر ہی چلی آیا کرو
فیض ہی فیض کا چشمہ یہ سدا جاری ہو
کتنی رنگین ہو، نازُک سی ہو اور پیاری ہو

ہاں تُجھے چھو کے میں میلا تو نہیں کر سکتا
رنگ بکھریں گے اگر پھر سے نہیں بھر سکتا
تُجھ کو وہ قید کرے عقل سے جو عاری ہو
کتنی رنگین ہو، نازُک سی ہو اور پیاری ہو​
 
آخری تدوین:
واقعی بہت پیاری نظم ہے ۔
لیکن ابھی تو شروع ہی کیا تھا اور ختم ہو گیا ۔
کچھ اور بند بھی ہونے چاہئیں ۔۔۔۔
یہ بہت کم ہے
 
آخری تدوین:

شوکت پرویز

محفلین
واقعہ بہت پیاری نظم ہے ۔
اگر "واقعہ" پیاری نظم ہے تو واقعہ والے دھاگہ میں تعریف کیجئے۔
یہ دھاگہ اظہر بھائی کی نظم "تُم" کے لئے مخصوص ہے۔
۔۔۔۔
بائی دَ وے، یہ "واقعہ" کون سی نظم ہے، ذرا ہمیں بھی بتائیں۔ ہم تو صرف "سانحہ" نظم کے بارے میں جانتے ہیں۔
:):)
 
آخری تدوین:
اگر "واقعہ" پیاری نظم ہے تو واقعہ والے دھاگہ میں تعریف کیجئے۔
یہ دھاگہ اظہر بھائی کی نظم "تُم" کے لئے مخصوص ہے۔
۔۔۔ ۔
بائی دَ وے، یہ "واقعہ" کون سی نظم ہے، ذرا ہمیں بھی بتائیں۔ ہم تو صرف "سانحہ" نظم کے بارے میں جانتے ہیں۔
:):)
:):)
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں
دراصل میں واقعی لکھنا چاہ رہا تھا تاکید کے لئے بات کیا سے کیا ہو گئی ۔
اب دھیان دوں گا۔۔۔۔اب وہ والا دھیان ت سمجھ لیجئے گا :)
 
واقعی بہت پیاری نظم ہے ۔
لیکن ابھی تو شروع ہی کیا تھا اور ختم ہو گیا ۔
کچھ اور بند بھی ہونے چاہئیں ۔۔۔ ۔
یہ بہت کم ہے
جناب علم اللہ اصلاحی صاحب،
خُکم سر آنکھوں پر۔ ایک بند خاص آپ کے نام پیش ہے

تُم


تُم مری سوچ پہ بیٹھی ہوئی اک تتلی ہو
کتنی رنگین ہو، نازُک سی ہو اور پیاری ہو

مجھ کو اُلجھائے سے رکھتے تھے تصور کے سراب
تُم سے پہلے تو کھلے تھے نہ خیالوں میں گُلاب
اب سکوں میں ہوں مرے ذہن پہ تُم طاری ہو
کتنی رنگین ہو، نازُک سی ہو اور پیاری ہو

پوچھنا کیا ہے؟ معطر سی چلی آیا کرو
چاہتا ہوں کہ تُم اکثر ہی چلی آیا کرو
فیض ہی فیض کا چشمہ یہ سدا جاری ہو
کتنی رنگین ہو، نازُک سی ہو اور پیاری ہو

ہاں تُجھے چھو کے میں میلا تو نہیں کر سکتا
رنگ بکھریں گے اگر پھر سے نہیں بھر سکتا
تُجھ کو وہ قید کرے عقل سے جو عاری ہو
کتنی رنگین ہو، نازُک سی ہو اور پیاری ہو

گُل تری راہ جو دیکھے تو مہک اترائے
اور کلی تیری نزاکت پہ کھلے شرمائے
کون ہے جس پہ ترا ناز ادا بھاری ہو
کتنی رنگین ہو، نازُک سی ہو اور پیاری ہو


 
جناب علم اللہ اصلاحی صاحب،
خُکم سر آنکھوں پر۔ ایک بند خاص آپ کے نام پیش ہے

تُم


تُم مری سوچ پہ بیٹھی ہوئی اک تتلی ہو
کتنی رنگین ہو، نازُک سی ہو اور پیاری ہو

مجھ کو اُلجھائے سے رکھتے تھے تصور کے سراب
تُم سے پہلے تو کھلے تھے نہ خیالوں میں گُلاب
اب سکوں میں ہوں مرے ذہن پہ تُم طاری ہو
کتنی رنگین ہو، نازُک سی ہو اور پیاری ہو

پوچھنا کیا ہے؟ معطر سی چلی آیا کرو
چاہتا ہوں کہ تُم اکثر ہی چلی آیا کرو
فیض ہی فیض کا چشمہ یہ سدا جاری ہو
کتنی رنگین ہو، نازُک سی ہو اور پیاری ہو

ہاں تُجھے چھو کے میں میلا تو نہیں کر سکتا
رنگ بکھریں گے اگر پھر سے نہیں بھر سکتا
تُجھ کو وہ قید کرے عقل سے جو عاری ہو
کتنی رنگین ہو، نازُک سی ہو اور پیاری ہو
گُل تری راہ جو دیکھے تو مہک اترائے
اور کلی تیری نزاکت پہ کھلے شرمائے
کون ہے جس پہ ترا ناز ادا بھاری ہو
کتنی رنگین ہو، نازُک سی ہو اور پیاری ہو



بہت شکریہ بھائی جان
:-P:-P
یہ تو آپ کی محبت ہے ۔۔۔
 
آخری تدوین:
بہت خوب محمد اظہر نذیر ! اس گیت کی ہر ہر سطر سے چھلکتی محبت کا کیا بیان! بہت ہی عمدہ، پیاری اور معصومانہ نظم۔

لفظ ایسے کہ جو رس گھول دیں کانوں میں مِرے
کتنے بھرپور محبت سے ہیں یہ بول تِرے
اب تو بس صبح و مسا گیت یہی جاری ہو
کتنی رنگین ہو، نازک سی ہو اور پیاری ہو​
 

دلاور خان

لائبریرین
بہت خوب محمد اظہر نذیر ! اس گیت کی ہر ہر سطر سے چھلکتی محبت کا کیا بیان! بہت ہی عمدہ، پیاری اور معصومانہ نظم۔

لفظ ایسے کہ جو رس گھول دیں کانوں میں مِرے
کتنے بھرپور محبت سے ہیں یہ بول تِرے
اب تو بس صبح و مسا گیت یہی جاری ہو
کتنی رنگین ہو، نازک سی ہو اور پیاری ہو​
یہ بند واقعی بہت عمدہ ہے :)
 

الف عین

لائبریرین
نہیں عزیزم ، میں واضح نہیں کر سکا۔ میرا اشارہ ’سی‘ کی طرف تھا، کہ جملے کے آخر میں یہ ضروری ہے، یا تو تینوں جگہ ہو، ورنہ کم از کم آخر میں ضرور استعمال کیا جائے۔ اسی لئے میں نے ’نازک سی‘ کو آخر میں تجویز کیا تھا
 
Top