ایک ہی خاندان پر مشتمل سوات کا منفرد گاؤں!

arifkarim

معطل
ایک ہی خاندان پر مشتمل سوات کا منفرد گاؤں
مینگورہ کا گاؤں سپل بانڈئی سوات کے دارالخلافہ سیدو شریف سے محض 8 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ سیاحتی مقام مرغزار جاتے ہوئے راستے میں دائیں طرف سرسبز و شاداب پہاڑی کے اوپر یہ گاؤں واقع ہے۔ یہ پاکستان کا وہ واحد گاؤں ہے جہاں ایک ہی دادا کی اولاد رہتی ہے۔

سپل بانڈئی کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سوات کے ان گنے چنے دیہاتوں میں سے ایک ہے جو پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے۔ سطح سمندر سے گاؤں کی بلندی 3600 فٹ یا 1100 میٹر ہے۔

سپل بانڈئی سے تعلق رکھنے والے شوکت شرار کی تحقیق کے مطابق گاؤں کے آثار قدیمہ بتاتے ہیں کہ یہاں محمود غزنوی کی افغان فوج کے آنے سے پہلے بدھ اور ہندو لوگوں کی آبادیاں تھیں۔ ’’سپل بانڈئی کا نام اور جغرافیائی خصوصیات بتاتی ہیں کہ یہ موجودہ گاؤں ان لوگوں نے آباد کیا جو محمود غزنوی کی افغان فوج کا حصہ تھے۔ گاؤں میں ابھی تک اس زمانے کا نظامِ آبپاشی موجود ہے۔‘‘

568f6e3492d06.jpg
گاؤں سپل بانڈئی، سوات.
568f6e3335844.jpg

568f6e34d1cbb.jpg
گاؤں کی سادہ زندگی کا ایک منظر.
568f6e34ba6ef.jpg
ایک کوچہ.
شوکت شرار کی تحقیق کے مطابق سوات کے وہ گاؤں جن کے ساتھ ’’پور‘‘ کا لاحقہ لگتا ہے، ہندوؤں کے بسائے گئے علاقے ہیں۔ سوات میں اسلام پور، فتح پور اور شاہ پور اس کی مثالیں ہیں۔ اس طرح ’’گرام‘‘ کا لاحقہ ان علاقوں کے ساتھ لگتا ہے جنہیں بدھ لوگوں نے آباد کیا تھا یا انہیں ترقی دی تھی۔ ایسے علاقوں میں اوڈیگرام، نجیگرام اور گلی گرام وغیرہ نمایاں ہیں۔ لفظ ’’بانڈئی‘‘ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ مذکورہ لفظ ان علاقوں کے ساتھ مستعمل ہے جنہیں پختون زمانے میں ترقی دی گئی ہے۔ اس تحقیق کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ سپل بانڈئی کو پختونوں نے ترقی دی تھی۔

گاؤں کے بیشتر لوگوں کا ماننا ہے کہ سلطان محمود غزنوی کے ساتھ آنے والی فوج نے اس گاؤں کو آباد کیا تھا، لیکن یہاں پر بدھ مت اور اس کے بعد ہندوشاہی دور کے آثار بھی ملتے ہیں ، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس گاؤں کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔

سوات شرکتی کونسل کی سمیطہ احمد کی ترتیب دی ہوئی کتاب ’’لکڑی اور پتھر میں شاعری‘‘ میں شوکت شرار رقم کرتے ہیں کہ پندرہویں صدی میں سوات پر یوسف زئی پختونوں نے دست تصرف دراز کیا۔ یوسف زئی قبیلے نے زمین کے بٹوارے کا ایک بے مثل طریقہ اپنایا۔ بٹوارے میں ان لوگوں کو بھی حصہ ملا جنہوں نے لشکر یا پیدل فوج میں حصہ لیا تھا۔

568f703a9560d.jpg

568f703a96a62.jpg

568f703ad99c0.jpg
گاؤں کا اپنا بائیو گیس پلانٹ.
فوج میں شامل ایک شخص شیخ سعدی، جو ترک نسل سے تھا، اس کو بھی حصہ ملا۔اس کا پوتا اخوند درویزہ ایک بڑا عالم بنا۔ مقامی لوگوں نے اسے ولی کا درجہ دیا۔ بعد میں اخوند درویزہ کے پوتوں نے گاؤں کی زمین کو آپس میں بانٹ لیا۔ ان کے پوتے میاں دولت بابا کی اولاد نے سپل بانڈئی گاؤں کو آباد کیا۔ آج میاں دولت بابا کی اولاد سپل بانڈئی میں آباد ہے۔‘‘

اس تحقیق کی روشنی میں اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ سپل بانڈئی پاکستان کا وہ واحد گاؤں ہے جہاں ایک ہی دادا کی اولاد رہتی ہے۔ گاؤں کے ایک بزرگ ’’امیر مشال‘‘ گاؤں کے شجرۂ نسب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’گاؤں سپل بانڈئی میں تین خاندانوں پر مشتمل لوگ رہتے ہیں۔ پورا گاؤں ’’اخوند درویزہ باباؒ‘‘ کی اولاد ہے۔ تینوں خاندان ’’برٹل میاں گان‘‘، ’’کوزہ خونہ میاں گان‘‘ اور ’’بنڑ میاں گان‘‘ کے ناموں سے مشہور ہیں۔‘‘

سوات کے دیگر گاؤں یا علاقوں میں ایک ایک محلے میں دو دو، تین تین مساجد ہوتی ہیں۔ بالفاظ دیگر ہر قبیلے یا خیل کی اپنی ایک الگ مسجد ہوتی ہے۔ اس حوالے سے سپل بانڈئی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پورے پاکستان میں یہ واحد گاؤں ہے جہاں سات ہزار کی آبادی ایک ہی مسجد میں نماز باجماعت ادا کرتی ہے۔ یہ بات ایک طرح سے اہل سپل بانڈئی کے اتحاد اور مذہبی اعتدال کی بھی غماز ہے۔

مسجد کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ تین سو سال پرانی ہے۔ یہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ تین ساڑھے تین سو سال پرانا جبکہ دوسرا عصر حاضر کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ مسجد ایک طرح سے قدیم و جدید دور کا حسین امتزاج ہے جسے ملک کے طول و عرض سے سیاح دیکھنے آتے ہیں۔ مسجد میں استعمال ہونے والی لکڑی پر مخصوص سواتی کاریگری کا جائزہ لیا جاسکتا ہے جو گردشِ ایام کے ساتھ معدومیت کا شکار ہوچکی ہے۔ اب سواتی کاریگر ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔

568f70b1ee6b7.jpg
گاؤں کی تین صدی پرانی مسجد کا منظر.
568f70b337e43.jpg
مسجد کی محراب کا منظر جو سواتی کاریگری کی آئینہ دار ہے۔
568f70b321159.jpg
مسجد گاؤں کی عین وسط میں واقع ہے.
568f70b31cfaf.jpg
ستونوں پر بھی نفیس نقش و نگار بنائے گئے ہیں.
گاؤں کے ایک سفید ریش عزیز خان کے بقول: ’’مسجد کی کئی خوبیاں ہیں۔ یہ عین گاؤں کے وسط میں واقع ہے اور صاف اور میٹھے پانی کا گزر بھی ایک نالے کی شکل میں اسی مسجد سے ہوتا ہے۔ چونکہ پورے گاؤں کی یہ واحد مسجد ہے، اس لیے پچھلے 315 سالوں سے اس گاؤں کے اتفاق و اتحاد اور یگانگت پر آج تک آنچ بھی نہیں آئی ہے۔‘‘

ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر محمد دوران مسجد میں استعمال ہونے والی لکڑی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’مسجد کی تزئین و آرائش میں استعمال ہونے والی لکڑی زیادہ تر ’’دیار‘‘ کی ہے۔ مسجد کے محراب میں تین قسم کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ استعمال شدہ کالے رنگ کی لکڑی کو عرف عام میں ’’بنڑیا‘‘ کہتے ہیں، جو کہ اس علاقہ کی لکڑی نہیں ہے اور یہ خاص طور پر موضع ملم جبہ سے منگوائی گئی ہے۔

اس میں دوسری قسم ’’دیار‘‘ کی لکڑی ہے۔ تیسری قسم اس میں ’’چیڑ‘‘ کی لکڑی استعمال ہوئی ہے، جسے سوات کی سب سے بہترین لکڑی ہونے کا اعزازحاصل ہے۔ تقریباً 315 سال گزرنے کے بعد بھی اس مسجد میں استعمال ہونے والی لکڑی موجودہ دور میں استعمال ہونے والی دیگر لکڑیوں سے بدرجہا بہتر اور مضبوط ہے۔ یہاں کی روایات کے مطابق مسجد کی تعمیر میں لکڑی کا استعمال زیادہ کیا گیا ہے۔ یہاں روایتی طرز تعمیر میں لکڑی، پتھر اور گارے کا ہی زیادہ تر استعمال ہوتا ہے اور یہی کچھ ہماری روایات ہیں۔‘‘

سپل بانڈئی کے بیشتر لوگ سرکاری ملازم ہیں جن میں ایک بڑی تعداد پولیس میں بھرتی ہے۔ اس کے علاوہ اندرون و بیرون ملک کام کرنے والے رقوم بھیجتے رہتے ہیں جس سے گاؤں کے لوگ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ آمدنی کے بیشتر ذرائع میں زراعت و باغبانی بھی شامل ہیں۔ یہاں کی زمین انتہائی زرخیز ہے۔ گندم اور مکئی جیسی نقد آور فصلوں کے علاوہ یہاں سبزیوں میں آلو، پیاز، گوبھی، مٹر،گاجر، مولی، شلجم وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔

پھلوں میں سیب، آلوچہ، خوبانی، شفتالو، انجیر وغیرہ بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں کا اَخروٹ خاص طور پر مشہور ہے جس کا چھلکا اتنا نرم ہوتا ہے کہ اسے انگلیوں میں دبا کر ہلکا زور دینے سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ چونکہ گاؤں سرسبز و شاداب ہے، اس لیے یہ مگس بانی (شہد کی مکھیاں پالنے) کے لیے بے حد موزوں ہے۔ اک آدھ جگہ اس حوالے سے تجربہ کیا بھی گیا ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر تھوڑی سی کوشش کی جائے تو مگس بانی بھی گاؤں والوں کے لیے ایک بہترین ذریعہ آمدن ثابت ہوسکتی ہے۔

568f7159cbefd.jpg
مسجد میں استعمال ہونے والی لکڑی پر اعلیٰ نقاشی کی گئی ہے.
568f7159c519e.jpg
315 سال گزرنے کے بعد بھی لکڑی موجودہ دور میں استعمال ہونے والی دیگر لکڑیوں سے بہتر اور مضبوط ہے۔
568f7159b6733.jpg
مسجد میں لگے ایک ستون پر کندہ شدہ فارسی کا شعر اور تاریخ نمایاں ہیں۔
گاؤں میں تعلیم کی شرح ملک کے باقی حصوں سے زیادہ ہے۔ سپل بانڈئی کے رہائشی امجد علی (اسکول ٹیچر) کے بقول ’’گاؤں میں تعلیم کی شرح 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں عموماً لڑکوں کی تعلیم پر زیادہ زور دیا جاتا ہے مگر سپل بانڈئی اس حوالے سے جداگانہ حیثیت کا حامل گاؤں ہے جہاں لڑکوں کے لیے مڈل اور لڑکیوں کے لیے ہائی اسکول قائم ہے۔ اس کے علاوہ دو پرائمری اسکول اور ایک نجی اسکول (انگلش میڈیم) بھی نونہالانِ وطن کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے قائم ہے۔‘‘

گاؤں میں کام کے بندوں کی کمی نہیں ہے۔ یہاں کے ایک رہائشی جہان پرویز نے بائیو گیس پلانٹ کا ایک کامیاب تجربہ کیا ہوا ہے۔ ان کے بقول ’’پشاور انجینئرنگ یونیورسٹی کے تعاون سے ہم نے بائیو گیس پلانٹ لگایا ہے۔ مویشیوں کے فضلے سے اب گیس کی پیداوار کا کام جاری ہے جس سے گھر میں کھانا پکانے اور کمروں کو گرم رکھنے کا کام لیا جاسکتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی گیس کسی بھی آٹھ سے دس افراد پر مشتمل خاندان کی زندگی سہل بنا سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف چھوٹے بڑے سلنڈر بھرے جاسکتے ہیں بلکہ اسے گاڑی کے ایندھن کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔‘‘

اتنی خوبیوں کے ساتھ اس گاؤں کو ایک بڑا خطرہ یہ لاحق ہے کہ آج کل اس کے اندر بے ہنگم تعمیرات زور و شور سے جاری ہیں، جو اس گاؤں کے فطری حسن کو ختم کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہاں کی زرخیز زمین تیزی کے ساتھ پختہ عمارتوں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے گاؤں کے بڑوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔ ترقی اور جدت ضرور ہونی چاہیے لیکن اگر اسے تھوڑی منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جائے، تو اس گاؤں کی خوبصورتی کو بچایا جا سکتا ہے۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔

ماخذ

زیک سید ذیشان اسد سعادت زین جیہ فاتح جاسمن حمیرا عدنان نور سعدیہ شیخ
 

نور وجدان

لائبریرین
انتہائی معلوماتی پوسٹ ہے ۔ گاؤں میں ایک ہی نسل کے باسی ہیں ۔ تصاویر عمدہ ہیں ، تین سو سال پرانی لگ تو نہیں رہیں ۔ خیر ! ایک غیر گنجان آباد علاقے میں کافی ترقی ہوئی مگر سرکاری سطح پر اصلاحات مقفود ہی لگیں ۔ خاص کر پولیس بھرتی اسی لیے کی جاتی کہ پولیٹیکل ایجنٹ بن کے اثر رسوخ قائم کیا جاسکے ۔ ہمارا ملک قدامت کی انتہا پر ہے
 

سارہ خان

محفلین
پرانا جینیاتی نقص لگتا ہے :)
اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان کے ہاں یا تو رواج ہوگا کہ کسی غیر کو علاقے میں آباد ہونے کی اجازت نہیں ۔۔ دوسرا یہ کہ ان کے پی کے ک لوگ وہاں کی خراب معاشی حالت کی وجہ سے دوسرے صوبوں میں مائیگریٹ ہو کے آتے ہیں ۔۔ وہاں کوئی مائیگریٹ کر کے نہیں جاتا ۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
بہت خوب!
مزید روشنی تو جیہ ہی ڈال سکتی ہیں۔
میں بھی چند بار سوات گئی ہوں۔ اب تو بہت عرصہ ہؤا۔ سیدو شریف کے کم از کم دو گاؤں تو دیکھے ہیں۔ ایک بار طالبات ٹرپ پہ گئیں تو ہم پھرتے پھرتے سیدو شریف کے ایک خشک نالے(ہمارے نزدیک تو وہ نالہ ہی تھا۔ چونکہ وہاں دریاؤں کے پاٹ بھی کم چوڑے ہوتے ہیں اس لئے شاید نہر ہو) کے اندر سے گزرتے (ایڈونچر)ہوئے دور اُوپر پہاڑوں پہ گئے۔ مختلف گروہ مختلف گھروں میں چلے گئے۔ گھروں میں صرف خواتین تھیں۔ ہمارے والا گروہ جس گھر گیا،وہاں کمرے میں ہی چولہا تھا۔ اُنہوں نے ہمارے لئے قہوے /چائے(یاد نہیں)کا پانی چولہے پہ رکھ دیا۔ ہم نے چولہے کے گرد اپنا سرائیکی جھومر ڈالا۔ اُن خواتین کو ساتھ ملا کر ملّی نغمے گائے۔ ظاہر ہے دونوں گروہوں کو ایک دوسرے کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ لیکن محبت کی زبان تو سب سمجھتے ہیں۔ ملّی نغمے اُنہیں نہیں آتے تھے لیکن ہمارا ساتھ دیتی تھیں۔ تازہ چلغوزے کھائے۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ بہت مزے کئے۔وہ ہمیں نیچے تک چھوڑنے آئیں۔
باقی گروہوں نے بھی اسی قسم کے خوشگوار تجربات کئے۔
 

جاسمن

لائبریرین
ایک بار سیدو شریف کے ایک بڑے سے ہوٹل میں قیام تھا۔ ہم تین سہیلیاں تھیں پنجاب کی اور ایک کراچی کی لڑکی بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئی تھی۔یہ کراچی کی ایک ٹورسٹ کمپنی کا ٹرپ تھا اور پنجاب سے بس ہم تینوں تھے۔
میں صبح صبح باقی تینوں کو جگا دیتی کہ مزہ تو صبح کی سیر کا ہوتا ہے۔ سیدو میں بھی یہی کیا۔ سب نے ہوٹل کی مسجد میں نماز پڑھی۔ ہوٹل کے لان میں لگے جاپانی پھلوں کو دیکھتے باہر نکل گئے۔ دھندلکا چھایا ہؤا تھا۔ دائیں طرف بغیر سوچے سمجھے چل پڑے۔ کچا راستہ اوپر کہیں جا رہا تھا۔ آگے سے ایک بوڑھی خاتون آ رہی تھیں۔ اُن کے ہاتھ میں دودھ کا برتن تھا۔ ہم نے اُنہیں سلام کیا۔ اُنہون نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ میں نے جھُکتے ہوئے خود پہ انگلی سے اشارہ کر کے اپنا اور پھر اشارے سے باقیوں کے نام بتائے۔ پھر اشارے سے اُن کا نام پُوچھا۔ اُنہوں نے بتایا۔"دُرگئی" اور پھر اُنہوں نے اشارے سے ناشتے کا پُوچھا۔ ہم نے معذرت کر لی اور رخصتی کا سلام لے دے کے آگے چل پڑے اور پیچھے لگ گئے کُتے۔ (اصلی والے):)(وہاں کا ماحول خواتین کے لئے بہت محفوظ تھا)
ہاہاہاہا۔۔۔بس جی میں تو نہیں ڈرتی لیکن باقیوں کا کیا کرتی۔۔۔واپس آ ہی گئے بچ بچا کے۔
 

جاسمن

لائبریرین
سوات کی بہت سی خوشگوار یادیں ہیں۔۔۔۔:)بہت پیارے لوگ ہیں سوات کے ۔ محبت والے،سادہ،پُرخلوص۔
 
نام پُوچھا۔ اُنہوں نے بتایا۔"دُرگئی" اور پھر اُنہوں نے اشارے سے ناشتے کا پُوچھا

جاسمن بہن سے معذرت کے ساتھ،
جب آپ نے ان سے نام پوچھا اس وقت وہ اتنی ساری لڑکیوں کو دیکھ کر سوچ رہی تھیں
" ان سب کو ناشتہ کروانا پڑے گا۔۔۔ آج تو درگت بن گئی"۔۔
وہ بھوکھلا کر پورا جملہ نہ بول سکیں، بس اردو پشتو ملا کر کہا " دُرگئی"۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
جاسمن بہن سے معذرت کے ساتھ،
جب آپ نے ان سے نام پوچھا اس وقت وہ اتنی ساری لڑکیوں کو دیکھ کر سوچ رہی تھیں
" ان سب کو ناشتہ کروانا پڑے گا۔۔۔ آج تو درگت بن گئی"۔۔
وہ بھوکھلا کر پورا جملہ نہ بول سکیں، بس اردو پشتو ملا کر کہا " دُرگئی"۔۔
ہاہاہاہااہا:D
دوست بھائی! وہ لوگ بہت مہمان نواز ہیں۔ سوات مینگورہ میں ہم نے ایک ہوٹل میں قیام کیا جو سڑک کنارے تھا۔ کچھ فاصلے پہ ایک چھوٹا سا ڈھابہ تھا شاہد ہوٹل کے نام سے۔ وہاں سے ہم کھانا کھایا کرتے تھے جب طالبات والے ٹرپ پہ گئے تھے۔ شاہد ہوٹل کے ساتھ ہی اُوپر کو ایک سڑک جاتی تھی۔ اُس کے آخر میں پہاڑی کاٹ کے ایک بہت بڑا گھر بنا ہؤا تھا۔ ہم اُس خوبصورت گھر کے سحر میں مبتلا تھے۔ سارا ریوڑ شاہد ہوٹل سے پوچھ پاچھ بس ایک کافی کا ڈبہ لے کے اُس گھر چل پڑا۔ خواتین نے بہت خوش دلی سے خوش آمدید کہا۔ جن کو کافی پسند تھی اُنہیں کافی میں پڑنے والے لوازمات دیے۔ اور باقیوں کو چائے پلائی۔ ڈاری فروٹ کھلائے۔ خوب ساری باتیں ہوئیں۔ اُن کے گھرکی کچھ لڑکیوں کی شادی رحیم یار خان میں ہوئی تھی۔ اُن کے تذکرے ہوئے۔ بہت خوشگوار شام بِتا کے ہم آئے۔
 

سارہ خان

محفلین
تحریک انصاف کے دانت ہیں۔ لگانے کیلئے اور دکھانے کیلئے اور۔
پاکستان کی پچاسی فیصد آبادی سندھ اور پنجاب میں ہے باقی صرف پندرہ فیصد کے پی کے اور بلوچستان میں ۔۔۔ سخت حالات زندگی اور روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے ۔۔
 

سارہ خان

محفلین
ایک بار سیدو شریف کے ایک بڑے سے ہوٹل میں قیام تھا۔ ہم تین سہیلیاں تھیں پنجاب کی اور ایک کراچی کی لڑکی بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئی تھی۔یہ کراچی کی ایک ٹورسٹ کمپنی کا ٹرپ تھا اور پنجاب سے بس ہم تینوں تھے۔
میں صبح صبح باقی تینوں کو جگا دیتی کہ مزہ تو صبح کی سیر کا ہوتا ہے۔ سیدو میں بھی یہی کیا۔ سب نے ہوٹل کی مسجد میں نماز پڑھی۔ ہوٹل کے لان میں لگے جاپانی پھلوں کو دیکھتے باہر نکل گئے۔ دھندلکا چھایا ہؤا تھا۔ دائیں طرف بغیر سوچے سمجھے چل پڑے۔ کچا راستہ اوپر کہیں جا رہا تھا۔ آگے سے ایک بوڑھی خاتون آ رہی تھیں۔ اُن کے ہاتھ میں دودھ کا برتن تھا۔ ہم نے اُنہیں سلام کیا۔ اُنہون نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ میں نے جھُکتے ہوئے خود پہ انگلی سے اشارہ کر کے اپنا اور پھر اشارے سے باقیوں کے نام بتائے۔ پھر اشارے سے اُن کا نام پُوچھا۔ اُنہوں نے بتایا۔"دُرگئی" اور پھر اُنہوں نے اشارے سے ناشتے کا پُوچھا۔ ہم نے معذرت کر لی اور رخصتی کا سلام لے دے کے آگے چل پڑے اور پیچھے لگ گئے کُتے۔ (اصلی والے):)(وہاں کا ماحول خواتین کے لئے بہت محفوظ تھا)
ہاہاہاہا۔۔۔بس جی میں تو نہیں ڈرتی لیکن باقیوں کا کیا کرتی۔۔۔واپس آ ہی گئے بچ بچا کے۔
میں ایک دفعہ سوات گئی ہوں بہت زبردست جگہ ہے ۔۔ لوگ بھی مہمان نواز اور ملنسار ۔۔۔ اور وہاں کے پھلوں کا ذائقہ ابھی تک نہیں بھولتا ۔۔۔
 
Top