ایک یادگار ملاقات​

از​

محمد خلیل الرحمٰن
(پطرس بخاری سے معذرت کے ساتھ)​



ایک دن مرزا صاحب اور میں برآمدے میں ساتھ ساتھ کرسیاں ڈالے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ جب دوستی بہت پرانی ہوجائے تو گفتگو کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی اور دوست ایک دوسرے کی خاموشی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ یہی حالت ہماری تھی۔ ہم دونوں اپنے اپنے خیالات میں غرق تھے۔ مرزا صاحب تو خدا جانے کیا سوچ رہے تھے لیکن میں زمانے کی ناسازگاری پر غور کر رہا تھا۔ سامنے ہی رئیس مستری ٹوٹی پھوٹی کرسیوں کی مرمت کررہا تھا۔ میری طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ میں جب کبھی کسی کرسی کو دیکھوں، مجھے زمانے کی ناسازگاری کا خیال ضرور ستانے لگتا ہے۔ اور میں کوئی ایسی ترکیب سوچنے لگتا ہوں جس سے دنیا کی تمام کرسیاں میرے قبضے میں آسکیں۔ اگر میں کسی بس میں سوار ہوجاؤں اور کوئی موٹا مسافر ایک خالی نشست پر ایک ادا سے ٹھس ٹھساکر بیٹھ جائے اور میں کھڑا کا کھڑا ہی رہ جاؤں تو اس دن میں گھر آکر علم کیمیا کی وہ کتاب نکال لیتا ہوں جو میں نے ایف۔اے میں پڑھی تھی اور اس غرض سے اُس کا مطالعہ کرنے لگتا ہوں کہ شاید بم بنانے کا کوئی نسخہ ہاتھ آجائے۔

میں کچھ دیرکنٹینر پر چڑھا آہیں بھرتا رہا۔
مرزا صاحب نے کچھ توجہ نہ کی۔ آخر میں نے خاموشی کو توڑا اور مرزا صاحب سے مخاطب ہو کر بولا۔ “مرزا صاحب! ووٹروں میں اور حیوانوں میں کیا فرق ہے؟” مرزا صاحب بولے:”بھئی کچھ ہوگا ہی نا آخر۔” میں نے کہا۔ “میں بتاؤں تمہیں؟” کہنے لگے۔ “بولو”۔

میں نے کہا۔ “کوئی فرق نہیں۔ سنتے ہو مرزا۔کوئی فرق نہیں۔ ووٹروں میں اور حیوانوں میں۔۔۔ کم از کم ہمارے ہاں کے ووٹروں میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں ۔ہاں ہاں میں جانتا ہوں تم مین میخ نکالنے میں بڑے طاق ہو۔ کہہ دو گے۔ حیوان جگالی کرتے ہیں، یہ جگالی نہیں کرتے۔ اُن کی دم ہوتی ہے، تمہارے اِن ووٹروں کی دم نہیں، لیکن ان باتوں سے کیا ہوتا ہے؟ ان سے تو صرف یہی ثابت ہوتا ہےکہ وہ اِن سے افضل ہیں لیکن ایک بات میں یہ اور وہ بالکل برابر ہیں کہ وہ بھی عقل سے پیدل ہیں یہ بھی پیدل ہی ہیں۔ اس کا تمہارے پاس کیا جواب ہے؟ جواب نہیں۔ کچھ ہے تو کہو۔ بس چپ ہوجاؤ۔ تم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ جب سے میں پیدا ہوا ہوں اس دن سے ان عقل کے پیدلوں کو یونہی دیکھ رہا ہوں۔کبھی کرسی پر بیٹھ کر ان پر ہنسنے کے قابل نہیں ہوسکا کیونکہ میں بھی پیدل ہی ہوں.

پیدل! تم پیدل کے معنی نہیں جانتے۔ پیدل کے معنی ہیں سینہٴ زمین پر اس طرح سے حرکت کرنا کہ دونوں پاؤں میں ایک ضرور زمین پر رہے یعنی تمام عمر میرے حرکت کرنے کا طریقہ یہی رہا ہے کہ ایک پاؤں زمین پر رکھتا ہوں دوسرا اٹھاتا ہوں۔ دوسرا رکھتا ہوں پہلا اٹھاتا ہوں۔ ایک آگے ایک پیچھے، ایک پیچھے ایک آگے۔ کبھی دونوں پیر اُٹھاکر کرسی پر نہ بیٹھ سکا۔ خدا کی قسم اس طرح کی زندگی سے دماغ سوچنے کے قابل نہیں رہتا۔ حواس بیکار ہوجاتے ہیں۔ تخیل مرجاتا ہے۔ آدمی گدھے سے بدتر ہوجاتا ہے۔”

مرزا صاحب میرے اس دھرنے اور کنٹینر کی تقریر کے دوران کچھ اس بےپروائی سے سگریٹ پیتے رہے کہ دوستوں کی بےوفائی پر رونے کو دل چاہتا تھا۔ میں نے ازحد حقارت اور نفرت کے ساتھ منہ ان کی طرف سے پھیر لیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مرزا کو میری باتوں پر یقین ہی نہیں آہا اور ان کی انگلی کبھی نہیں اٹھے گی۔ گویا میں اپنی جو تکالیف بیان کر رہا ہوں وہ محض خیالی ہیں یعنی میرا کرسی کی فرمائش کرنا قابل توجہ ہے ہی نہیں ،یعنی میں کسی کرسی کا مستحق ہی نہیں۔ میں نے دل میں کہا۔ “اچھا مرزا یوں ہی سہی۔ دیکھو تو میں کیا کرتا ہوں۔”

میں نے اپنے دانت پچی کر لیے اور کرسی کے بازو پر سے جھک کر مرزا کے قریب پہنچ گیا۔ مرزا نے بھی سر میری طرف موڑا۔ میں مسکرادیا لیکن میرے تبسم میں زہر ملا ہوا تھا۔ جب مرزا سننے کے ليے بالکل تیار ہوگیا تو میں نے چبا چبا کر کہا۔
“مرزا میں الیکشن لڑکر وزیرِ اعظم کی کرسی خریدنے لگا ہوں۔” ۔یہ کہہ کر بڑے استغنا کے ساتھ دوسری طرف دیکھنے لگا۔ مرزا پھر بولے۔ “کیا کہا تم نے؟ کس سے لڑنے لگے ہو؟”

میں نے کہا۔ “سنا نہیں تم نے میں الیکشن لڑکر وزیرِ اعظم کی کرسی حاصل کرنے لگا ہوں۔ الیکشن لڑنا اور کرسی حاصل کرن
ا جس کو بعض لوگ ایک ہی عمل کہتے ہیں، لیکن چونکہ تم ذراکند ذہن ہو، اس ليے میں نے دونوں لفظ استعمال کردیئے۔ تاکہ تمہیں سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے”۔ مرزا بولے۔ “ہوں”۔ اب کے مرزا نہیں میں بےپروائی سے سگریٹ پینے لگا۔ بھویں میں نے اوپر کو چڑھا لیں۔ پھرسگریٹ والا ہاتھ منہ تک اس انداز سے لاتا اور لے جاتا تھا کہ بڑے بڑے ایکٹر اس پر رشک کریں۔ تھوڑی دیر کے بعد مرزا بولے۔ “ہوں”۔ میں نےسوچا اثر ہو رہا ہے۔ مرزا صاحب پر رعب پڑ رہا ہے۔ میں چاہتا تھامرزا کچھ بولے،تاکہ مجھے معلوم ہوکہاں تک مرعوب ہوا ہے لیکن مرزا نے پھر کہا۔ “ہوں”۔

میں نے کہا۔ “مرزا جہاں تک مجھے معلوم ہے تم نے اسکول اور کالج اور گھر پر دو تین زبانیں سیکھی ہیں اور اس کے علاوہ تمہیں کئی ایسے الفاظ بھی آتے ہیں جو کسی اسکول یا کالج یا شریف گھرانے میں نہیں بولے جاتے۔ پھر بھی اس وقت تمہارا کلام “ہوں” سے آگے نہیں بڑھتا۔ تم جلتے ہو۔ مرزا اس وقت تمہاری جو ذہنی کیفیت ہے، اس کو عربی زبان میں حسد کہتے ہیں۔” مرزا صاحب کہنے لگے۔ “نہیں یہ بات تو نہیں، میں تو صرف وزیرِ اعظم کی کرسی حاصل کرنے کے الفاظ پر غور کر رہا تھا۔ تم نے کہا میں یہ کرسی خریدنے لگا ہوں تو میاں صاحب زادے! یہ تو ایک ایسا فعل ہے کہ اس کے ليے بہت سارے روپیوں اور پونے تین سو اتحادیوں وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وغیرہ کا بندوبست تو بخوبی ہو جائے گا لیکن پونے تین سو ممبران کا بندوبست کیسے کرو گے؟”

یہ نکتہ مجھے بھی نہ سوجھا تھا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری۔ میں نے کہا۔ “کچھ لوٹے میری پارٹی میں آئے ہیں۔” مرزا بولے۔ “کتنے مثلاً؟” میں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔ “ نیز میں الیکٹیبلز کو خرید لوں گا۔” مرزا کہنے لگے۔ “چلو پچیس تیس یہ ہوگئے، باقی ڈھائی سو کا انتظام بھی اسی طرح ہوجائے تو سب کام ٹھیک ہوجائے گا۔”

اس کے بعد ضروری یہی معلوم ہوا کہ گفتگو کا سلسلہ کچھ دیر کے ليے روک دیا جائے چنانچہ میں مرزا سے بیزار ہو کر خاموش ہو رہا۔ یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ لوگ اتنے سارے ممبران کو خریدنے کے لیے روپیہ کہاں سے لاتے ہیں؟ بہت سوچا۔ آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ لوگ چوری کرتے ہیں۔ اس سے ایک گونہ اطمینان ہوا کہ کچھ بدترین لوگ میرے پاس بھی تھے۔

مرزا بولے۔ “میں تمہیں ایک ترکیب بتاؤں ! اب کی بار الیکشن میں حصہ لے ہی لو۔”
میں نے کہا۔ وہ اکثریت حاصل کرنے کا مسئلہ تو پھر بھی جوں کا توں رہا۔” کہنے لگے۔اس کی ضمانت ہماری ”۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔ ہائیں ؟ وہ کیسے؟” کہنے لگے۔ ایسا ہی سمجھو۔ آخر دوست کو لفٹ نہ کروانا بھی کہاں کی شرافت ہے۔
البتہ تم ہی احسان قبول کرنا گوارانہ کرو تو اور بات ہے۔”

ایسے موقع پر جو ہنسی میں ہنستا ہوں اس میں معصوم بچے کی مسرت، جوانی کی خوش دلی، ابلتے ہوئے فواروں کی موسیقی اور بلبلوں کا نغمہ سب ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔ چنانچہ میں یہ ہنسی ہنسا اور اس طرح ہنسا کہ کھلی ہوئی باچھیں پھر گھنٹوں تک اپنی اصلی جگہ پر واپس نہ آئیں۔ جب مجھے یقین ہوگیا کہ یک لخت کوئی خوشخبری سننے سے دل کی حرکت بند ہوجانے کا جو خطرہ ہوتا ہے اس سے محفوظ ہوں، تو میں نے پوچھا۔ “آخر کیسے؟”

مرزا بولے۔ “اس کی فکر تم چھوڑو۔ تمہیں الیکٹ کروانا ہمارا کام ہے۔” میں نے کہا۔ “پھر کہنا پھر کہنا!” کہنے لگے۔ بھئی کہہ جو دیا الیکشن میں کھڑے تم ہوجاؤ، تمہارا جیتنا ہمارے ذمے، پونے تین سو ممبران کا انتظام بھی ہوجائے گا ۔
” یقین مانیے مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ شرم کے مارے میں پسینا پسینا ہوگیا۔ چودھویں صدی میں ایسی بےغرضی اور ایثار بھلا کہاں دیکھنے میں آتا ہے۔ میں نے کرسی سرکا کر مرزا کے پاس کرلی ۔ سمجھ میں نہ آیا کہ اپنی ندامت اور ممنونیت کا اظہار کن الفاظ میں کروں؟

میں نے کہا۔ “مرزا صاحب سب سے پہلے تو میں اس گستاخی اور درشتی اور بےادبی کے ليے معافی مانگتا ہوں، جو پچھلے الیکشن میں میں نے تمہارے ساتھ گفتگو میں روا رکھی، دوسرے میں آج تمہارے سامنے ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ تم میری صاف گوئی کی داد دو گے اور مجھے اپنی رحم دلی کے صدقے معاف کردوگے۔ میں ہمیشہ تم کو ازحد کمینہ، ممسک، خودغرض اور عیار انسان سمجھتارہا ہوں۔ دیکھو ناراض مت ہو۔ انسان سے غلطی ہوہی جاتی ہے۔ لیکن آج تم نے اپنی شرافت اور دوست پروری کا ثبوت دیا ہے اور مجھ پر ثابت کردیا ہے کہ میں کتنا قابل نفرت، تنگ خیال اور حقیر شخص ہوں ۔ مجھے معاف کردو۔ میں یو ٹرن لیتا ہوں”

میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ قریب تھا کہ میں مرزا کے ہاتھ پر بوسہ دیتا اور اپنے آنسوؤں کو چھپانے کے ليے اس کی گود میں سر رکھ دیتا۔ لیکن مرزا نے ہاتھ کے اشارے سے چائے پینے کو کہا۔

جلدی جلدی چائے پی
، دل ہی دل میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ “چل چل چنبیلی باغ میں” گاتا رہا ۔اس کے بعد چلنے لگا تو میں نے پھر کہا کہ مرزا کل ضرور صبح ہی صبح میٹنگ کرلینا رخصت ہونے سے پہلے میں نے پھر ایک دفعہ کہا۔ “کل صبح آٹھ نو بجےتک تفصیلات پر غور کرلینا، دیر نہ کردینا۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔ اور دیکھو مرزا میرے تھوڑے سے خلوص کو بھی زیادہ سمجھنا۔۔۔ خداحافظ۔۔۔ اور تمہارا بہت بہت شکریہ، میں تمہارا بہت ممنون ہوں اور میری گستاخی کو معاف کردینا ۔ دیکھونا کبھی کبھی یوں ہی بےتکلفی میں۔۔۔ کل صبح آٹھ نو بجے تک۔۔۔ ضرور۔۔۔ خداحافظ۔۔۔”

مرزا کہنے لگے۔ “ذرا اپنے ساتھیوں کو ہلا جلاکر دیکھ لینا اور بعد کے لیے تیار کرلینا”۔ میں نے کہا۔ “ہاں ہاں ۔ وہ سب کچھ ہوجائے گا بس تم اپنی تیاری ضرور مکمل رکھناا اور دیکھنا آٹھ بجے تک، ساڑھےسات بجے تک کمک ضرور پہنچ جائے۔ “اچھا۔۔۔ خداحافظ!".

اٹھ کر گھر روانہ ہوا تو ایسے جیسے ایک راج ہنس زمین کے ساتھ ساتھ اُڑ رہاہے۔ وہ مسکراہٹ جس کا میں اوپر ذکر کرچکا ہوں ابھی تک میرے ہونٹوں پر کھیل رہی تھی ۔ بارہا دل چاہا کہ ابھی بھاگ کر جاؤں اور اسی وقت مرزا کو گلے لگالوں۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
ماشاء اللہ آج دو سال کے بعد آپ کو پھر سے فاختہ اڑانے کا خیال آیا۔ جس کے نتیجے میں یہ لڑی سامنے آئی۔
بہت داد قبول فرمائیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس یادگار ملآقات کے نتیجے میں ھائیبرڈ بیجوں کا تجربہ کیا گیا۔
محکمہ زراعت سے زبردست ملاقات رہی :)
جب ہر الیکشن مینج ہونا ہی ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کس نے کیا ہے۔ اگر یہ کام محکمہ زراعت نہ کرے تو الیکشن کمیشن، عدلیہ اور بیروکریسی والے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ 2013 کے الیکشن کے بارہ میں مشہور ہے کہ وہ آر اوز کا الیکشن تھا۔ اس لئے پاکستان میں صاف شفاف الیکشن کا خواب فقط خواب ہی رہے گا۔
 
Top