ایگزیکٹ اور منی لانڈرنگ فراڈ:

حمیر یوسف

محفلین
اسلام آباد (مانیٹیرنگ ڈیسک ) ایگزیکٹ بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ میں بھی ملوث ہے، غیر ملکی بینکوں نے لین دین منقطع کردیا۔ ایف آئی اے کے مطابق منی لانڈرنگ کے واضح ثبوت ملے ہیں۔ جعلی اکاؤنٹس میں موجود جعلی ڈگریوں کی آمدنی کا بھی سراغ لگایا جائیگا۔ جعلی ڈگری کے اسکینڈل کے بعد مختلف غیر ملکی بینکوں نے ایگزیکٹ کے ساتھ لین دین منقطع کردیا ہے، جبکہ تحقیقات میں ایگزیکٹ کے وسیع پیمانے پر منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے واضح شواہد بھی ملے ہیں، جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ دریں اثناء ایگزیکٹ کے کمپیوٹر ریکارڈ سے 232 جعلی یونیورسٹیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے سرٹیفیکیٹ کی کاپیاں اور آڈیو ریکارڈنگ بھی برآمد ہوئی ہے۔ ایف آئی اے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ایگزیکٹ کے دفتر سے برآمد کئے گئے کمپیوٹروں میں کئی ڈگریاں محفوظ ہیں جن میں کچھ ڈگریوں پر نام درج ہے اور کئی بغیر ناموں کے ہیں۔ ایک ٹی وی نے ایف آئی اے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایگزیکٹ کے جعلی اکاؤنٹس کا بھی سراغ لگایاگیا ہے۔ ان اکاؤنٹس میں کچھ شعیب شیخ کے نام سے ہیں۔ انہوں نے اپنے ملازمین کے نام سے بھی اکاؤنٹس کھول رکھے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایگزیکٹ کمپنی کے نام پر 5 مختلف بینکوں میں 9 اکاؤنٹ ہیں، جن میں لین دین کی مکمل تفضیلات طلب کرلی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک اکاؤنٹ ایک ایسے صحافی ےکے نام پر بھی ہے جو بول میں تھا مگر اب مستغفی ہوچکا ہے۔

ماخذ: ایکسپریس نیوز کراچی ایڈیشن
http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1102864842&Issue=NP_KHI&Date=20150524
 

حمیر یوسف

محفلین
ڈگری بیچنے کیلئے 15 دن کا ٹاسک ملتا تھا۔ سابق ملازم کا انکشاف
پانچ لاکھ ڈالر کی ڈگریاں بیچیں تھیں: احمد، قبرص کی کمپنی شعیب کے نام رجسٹرڈ ہے، کراچی میں جن دفاتر میں رقوم وصول کی جاتی تھیں، وہاں تالے پڑگئے ہیں۔ امریکی رپورٹر کا انکشاف۔


واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک)۔ ایگزیکٹ کمپنی کا اسکینڈل بے نقاب کرنے کے بعد نیویارک ٹائمز کے امریکی صحافی نے مزید انکشافات کئے ہیں۔ ایکسپریس نیوز کےمطابق نیویارک ٹائمز کے رپورٹر نے 111 جعلی یونیورسٹیوں کو فون کئے لیکن کہیں سے کوئی جواب نہیں ملا، ڈیکلن والش کے مطابق کمپنی کے سابق ملازم سکندر حیات نے خود نیویارک ٹائمز سے رابطہ کرکے بتایا کہ اسے ہاروڈ اور نکسن یونیورسٹی کی ڈگریاں فروخت کرنے کا کام سونپا گیا، اسے طلبہ کو 10 سے 15 دن میں ڈگری فروخت کرنے کا ٹاسک دیا جاتا تھا۔ سکندر ایگزیکٹ میں سیلز ایجنٹ کے طو ر پر "ہینک ایم موڈی" کے نام سے کام کرتا تھا۔ ایک اور سابق ملازم احمد کا کہنا ہے کہ اس نے 3ماہ نے 5 لاکھ ڈالر کی جعلی ڈگریاں فروخت کیں، 2012 میں کمپنی کی ایک دن کی کمائی 80 ہزار سے ایک لاکھ ڈالر تھی، ڈگریوں کے خریدار زیادہ تر امریکی نوجوان تھے جو فوج میں شامل ہوکر عراق اور افغان جنگ میں جانے کے خواہشمند تھے۔

ایگزیکٹ کے سابق ملازمین نے مزید ایسی ویب سائیٹس کی نشاندہی بھی کی ہے جسکے ذریعے ایگزیکٹ اپنی ڈگریاں بیچتی ہے۔ قبرص میں ایک کمپنی ایگزیکٹ کے مالک شعیب شیخ کے نام پر رجسٹرڈ ہے جو امریکہ میں کیلی فورنیا، کولوراڈو اور ٹیکساس میں ڈاک کے ذریعے پیسے وصول کرتی ہے، جبکہ فلوریڈا میں بنک آف امریکا میں کمپنی کے دو اکاؤنٹس ہیں۔ کمپنی کا پاکستان کے علاوہ زیادہ تر کاروبار دبئی میں ہے۔ کافی عرصے تک دبئی میں کوریئر سروس کے ذریعے ڈگریاں ارسال کی جاتی رہیں ہیں، تاکہ خریداروں کو یہ لگے کہ ڈگریاں دبئی کی کمپنی کے ذریعے خریدی جا رہی ہیں، لیکن 2009 میں ایک امریکی کتے کو ورچوئل یونیورسٹی کی جعلی ڈگری ملنے کے بعد عرب نیوز نے ایگزیکٹ کو اس دھندے میں ملوث قرار دیا ، لیکن دھمکی آمیز کالوں کے بعد آرٹیکل کو انٹرنیٹ سے ہٹا دیا گیا۔

ایگزیکٹ کے سابق ملازم نے مزید انکشاف کیا کہ جعلی ڈگریوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم بیرون ملک قائم 20 سے زائد کمپنیوں کے ذریعے وصول کی جاتی تھی، جب کہ ایگزیکٹ کی ایک کمپنی قبرص میں رجسٹر "کنیکٹ شفٹ" تھی، جسکے کاغذات میں مالک کا نام شعیب شیخ درج ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق جعلی ڈگریوں کی فروخت کیلئے ایگزیکٹ کا کراچی میں دفتر راتوں رات بند ہوگیا۔ امریکی صحافی کی جاری دستاویزات میں ایک ایجنٹ سید عاصم معراج ہاشمی کے ساتھ ساتھ شاہراہ فیصل پر واقع ایک عمارت کا بھی ذکر ہے ، امریکی رپورٹر ڈیکلن واش کے مطابق جعلی ڈگریوں کے عوض رقم کراچی میں بھی وصول کی جاتی تھی، ان پر اب تالے پڑے ہیں اور یہ تینوں دفاتر کے الیکٹرک اور واٹر بورڈ کے بھی نادہند ہیں۔

ماخذ: ایکسپریس نیوز کراچی ایڈیشن
http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1102865754&Issue=NP_LHE&Date=20150524
 
Top