میرے نزدیک یہاں سے ایک دوسری بحث کا آغاز ہو تا ہے ۔ اور وہ یہ کہ مشاہدات کی حدود اور عقلیات کا مشاہدات پر حاکم ہونا اور ان دونوں کی حدود اس کے علاوہ کسی علمی وسیلے یا زریعے کی موجودگی۔(جیسا کہ آسمانی مذاہب میں الہام و وحی)
یہ پہلے والے نقطے پر منحصر ہے۔ اور اس انفرادی تجربے پر جس پر کوئی ایسی واردات ہوتی ہو۔
خدا پر یقین کرنے کا سبب محض مشاہدات یا محض عقلیات ہوتا تو تمام عقلیات والے اور تمام مشاہدات والے خدا پر ایمان والے ہوتے۔ آپ اگر اپنے موقف کی ماڈریٹ پوزیشن اختیار کر نے والے آپشن پر ذرا گہرائی سے غور کریں اور دیکھیں کی اس درمیانی راہ ضرورت کیوں پیش آتی ہے ۔مشاہدات اور عقلیات کے ساتھ ساتھ انسان پر ایک اور قوت یا ملکہ حاصل ہوتا ہے جو اس کے فکری نظام کے ڈھانچے کو متعین کرتا اور جس طرح مشاہدات پر عقل حاکم ہوتی ہے یہ قوت عقلی اور تجزیاتی اقدار پر حاکم ہوتی ہے۔ اور اسے اس کے اعلی تر مقاصد سے روشناس کراتی اور انسان اپنی نظریاتی بنیادڈالتا ہے۔
اب ایتھیسٹ کو دیکھیں تو وہ خارجی دنیا یعنی مشاہدات اور عقلیات کے عنصر کے غلبے (اس کے بھی کئی مدارج ہوں گے یہ بائنری نظام کی طرح نہیں ) کی وجہ سے بظاہر خدا کا انکار کرتا ہے لیکن درحقیقت وہ اس غلبے کی وجہ سے اس قوت کا انکار کر تا ہے جو عقلیات اور مشاہدات کے گوں نا گون (ڈائیورسٹی) تجربات میں "کھو" جاتی ہے یا " سو "جاتی ہے۔اور نتیجتاََ لامحالہ اسے اپنے آپ کو حیوان ماننا پڑتا ہے اوراسے انسانیت کی محترم منصب سے استعفی دینا پڑتا ہے لیکن بایں ہمہ وہ اس کی جراءت کرتا ہے ۔اب کیون کہ اس کے پاس سوائے عقلیات و مشاہدات کے کوئی اور چارہ نہیں سو اس لیے وہ اس کے جواز کے لیے خارجی دنیا میں سرگرداں رہتا ہے اور داخلی دنیا سے رجوع نہیں کر پاتا بہر حال سب سے بڑا نقصان اسے انسانیت کا مقام کھونے کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے۔
اب دیکھیں ایگناسٹک کو کہ یہ ایتھیسٹ سے کس طرح مختلف ہے ۔ اس پر مشاہدات اور عقلیات کا غلبہ یقینا ہوتا ہے مگر اس کی وہ شدت نہیں ہوتی جو اس کے اندر انسانیت کے اس جوہر کو دبا سکے ۔ انسانیت وہ جوہر ہے جسے وہ کھونے کا خوف رکھتا ہے اور وہ خدا کا دیا ہوامقام کھونا افورڈ نہیں کرپاتا ) لیکنوہ در پردہ داخلی انتشار کا شکار رہتاہے اور ایک درمیانی راہ کو موقف کا درجہ دے کر مطمئن و مامون ہونا چاہتا ہے ۔یہی خوف یا کمزوری اسے ایتھیسٹ سے ممتاز کرتی ہے۔
میں نے اسے ڈر پوک یا ضعیف حقارتاََ ہر گز نہیں کہا تھا (جیسا کہ
عثمان صاحب نے سمجھا تھا ) بلکہ وضاحتاََ کہا تھا ۔ اسے صرف میری رائے سمجھا جائے،