ایگناسٹک

نور وجدان

لائبریرین
میرے تو خیال میں وجدان کے پیچھے کسی بھی خیال کی شدید مرکوزیت کا بڑا ہاتھ ہے۔ جب تک انسان اسمیں پری طرح غرق نہ ہوجائے یہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ بدھمت میں اسے غالباً نروانا کہا جاتا ہے۔

  • مرکوزیت ۔۔۔۔۔یعنی کہ ہم سب انتشار کا شکار ہیں ؟ کچھ انسان جو شعوری طور پر سوچ کے تمام در بند کیے دیتے ہیں جن کو ہم متشدد بھی کہتے یا ان میں عدم برداشت کا مظاہرہ دکھنے کو ملتا ہے وہ بھی مرکوزیت کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ آپ کے جواب سے تشفی تو ہوئی ہے مگر مکمل نہیں ہوئی ہے اور دوسرا ۔۔۔۔۔عقل سے مرکوزیت کا سفر اضافی سے مستقل کی طرف سفر ہے مگر وجدانی یا مرکوزیت کی خاصیت بھی اضافی ہوتی ہے یعنی انسانی وجدان بھی عقل کی اضافیت پر چلتا ہے اس کی تکمیل کب ہوتی ہے ؟ یہی وجہ ہے دنیا میں مختلف نوع کے ذہین انسان پائے جاتے ہیں ۔وجدانی صلاحیت کیا استعمال کرنے کے لیے نروانا کی طرف جانا پڑے گا۔۔کرسٹو فر مارلو نے ساری زندگی ایتھیسٹ بن کے گزاری ۔۔اعلی پائے کا مفکر تھا ، انقلابی تھا اس کی سوچ میں کوئی تبدیلی اسے موحد نہ بناسکی یہاں تک کہ عدم کا سفر اسے اگناسٹزم کی طرف لے گیا مگر موحد نہ بناسکا یا مارکس نے ایتھیسٹ بنتے زندگی گزار دے مگر پورے روس میں انقلاب لے آیا جسکو بلشیوک انقلاب کہتے ہیں۔کیا ایٹھیسٹ انتشار کا شکار نہیں ہوتا؟ جب کہ مارکس نے ساری زندگی الکوحلک رہتے گزار دی ۔
 

اکمل زیدی

محفلین
میرے نزدیک یہاں سے ایک دوسری بحث کا آغاز ہو تا ہے ۔ اور وہ یہ کہ مشاہدات کی حدود اور عقلیات کا مشاہدات پر حاکم ہونا اور ان دونوں کی حدود اس کے علاوہ کسی علمی وسیلے یا زریعے کی موجودگی۔(جیسا کہ آسمانی مذاہب میں الہام و وحی)

یہ پہلے والے نقطے پر منحصر ہے۔ اور اس انفرادی تجربے پر جس پر کوئی ایسی واردات ہوتی ہو۔


خدا پر یقین کرنے کا سبب محض مشاہدات یا محض عقلیات ہوتا تو تمام عقلیات والے اور تمام مشاہدات والے خدا پر ایمان والے ہوتے۔ آپ اگر اپنے موقف کی ماڈریٹ پوزیشن اختیار کر نے والے آپشن پر ذرا گہرائی سے غور کریں اور دیکھیں کی اس درمیانی راہ ضرورت کیوں پیش آتی ہے ۔مشاہدات اور عقلیات کے ساتھ ساتھ انسان پر ایک اور قوت یا ملکہ حاصل ہوتا ہے جو اس کے فکری نظام کے ڈھانچے کو متعین کرتا اور جس طرح مشاہدات پر عقل حاکم ہوتی ہے یہ قوت عقلی اور تجزیاتی اقدار پر حاکم ہوتی ہے۔ اور اسے اس کے اعلی تر مقاصد سے روشناس کراتی اور انسان اپنی نظریاتی بنیادڈالتا ہے۔
اب ایتھیسٹ کو دیکھیں تو وہ خارجی دنیا یعنی مشاہدات اور عقلیات کے عنصر کے غلبے (اس کے بھی کئی مدارج ہوں گے یہ بائنری نظام کی طرح نہیں ) کی وجہ سے بظاہر خدا کا انکار کرتا ہے لیکن درحقیقت وہ اس غلبے کی وجہ سے اس قوت کا انکار کر تا ہے جو عقلیات اور مشاہدات کے گوں نا گون (ڈائیورسٹی) تجربات میں "کھو" جاتی ہے یا " سو "جاتی ہے۔اور نتیجتاََ لامحالہ اسے اپنے آپ کو حیوان ماننا پڑتا ہے اوراسے انسانیت کی محترم منصب سے استعفی دینا پڑتا ہے لیکن بایں ہمہ وہ اس کی جراءت کرتا ہے ۔اب کیون کہ اس کے پاس سوائے عقلیات و مشاہدات کے کوئی اور چارہ نہیں سو اس لیے وہ اس کے جواز کے لیے خارجی دنیا میں سرگرداں رہتا ہے اور داخلی دنیا سے رجوع نہیں کر پاتا بہر حال سب سے بڑا نقصان اسے انسانیت کا مقام کھونے کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے۔
اب دیکھیں ایگناسٹک کو کہ یہ ایتھیسٹ سے کس طرح مختلف ہے ۔ اس پر مشاہدات اور عقلیات کا غلبہ یقینا ہوتا ہے مگر اس کی وہ شدت نہیں ہوتی جو اس کے اندر انسانیت کے اس جوہر کو دبا سکے ۔ انسانیت وہ جوہر ہے جسے وہ کھونے کا خوف رکھتا ہے اور وہ خدا کا دیا ہوامقام کھونا افورڈ نہیں کرپاتا ) لیکنوہ در پردہ داخلی انتشار کا شکار رہتاہے اور ایک درمیانی راہ کو موقف کا درجہ دے کر مطمئن و مامون ہونا چاہتا ہے ۔یہی خوف یا کمزوری اسے ایتھیسٹ سے ممتاز کرتی ہے۔
میں نے اسے ڈر پوک یا ضعیف حقارتاََ ہر گز نہیں کہا تھا (جیسا کہ عثمان صاحب نے سمجھا تھا ) بلکہ وضاحتاََ کہا تھا ۔ اسے صرف میری رائے سمجھا جائے،
:applause:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:thumbsup:
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نفس کی شوخیاں کب مطمئنہ کا درجہ حاصل کر پاتی ہیں ؟
یہ نفس مدرکہ کی شوخیاں ہیں جو نفس امارہ سےشروع ہو کر نفس لوامہ سے گزرتا ہوانفس مطمئنہ کی طرف رواں ہو تا ہے ۔ یہ شوخیاں عام شوخیاں نہیں ۔
بلکہ یہ شوخیاں نفس کو مطمئن ہونے کے بعد نصیب ہوتی ہیں ۔ ایک شوخی دیکھیئے۔
فرشہ صید پیمبر شکار یزداں گیر ۔
ویسے موضوع سے ہٹ گئی ہیں کافی باتیں ۔
 
ایک موحد کا ملحد ہونا یا ملحد سے موحد ہونا شعور یا مادہ کا محتاج ہوتا تو اس دنیا سے جانے والے مسلم افراد کے متعلق یہ مفروضہ قائم کیا جاسکتا ہے
1۔ کچھ موحد مرگئے
2، کچھ ملحد مرگئے
3۔ کچھ اگناسٹکس مرگئے

سب کے مرنے والے مسلمان ہونے کا لیبل بھی رکھتے ہیں ۔ یہاں سے ایک اور سوال نکلتا ہے کہ اگر خلفاء راشدین اس دنیا سے رخصت ہوئے یا کچھ ولی اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنی زندگی میں ملحد۔۔۔۔۔۔۔موحد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاداریت ۔۔۔۔۔۔۔۔ان سب مدارج سے گزرتے رہے ہیں اس لیے ان کے بارے میں کچھ کہنا فضول ہے ۔ میرا خیال عقل کی اضافی خاصیت ہر انسان ریلیٹو ہوتی ہے اگر اس کا موازنہ کسی دوسرے سے کیا جائے مگر انسان کی عقل پر ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب اضافیت سے مستقل یا کانسٹنت کی طرف سفر ہوتا ہے ۔ یہی سفر اقبال، غزالی ، رومی کو دوسروں سے ممتاز کرگیا تھا یہی کانسٹنت کا سفر ایک ڈاکو حضرت ابو الفضیل بن عیاض کو ولی کا درجہ دے گیا ۔ سوال یہی بنتا ہے کن شواہد و عوامل سے عقل کی اضافی اکائی کانسٹنٹ میں بدلتی ہے ؟

نفس کی شوخیاں کب مطمئنہ کا درجہ حاصل کر پاتی ہیں ؟

آئی کیو ۔۔۔۔۔۔۔ وجدان ۔۔۔۔۔۔یہ ایک چیز ہے ِ؟ انسانی پروسیسر ۔۔۔۔۔۔ انسانی ہارڈ ڈسک ۔۔۔۔۔۔ یہی آئی کیو بناتی ہے ۔۔۔سائنس کے مطابق سب کا پروسییسر اور ہارڈ ڈسک ایک سی ہے مگر کیا وجہ ہے وجدان کی مکمل بیداری اسے دوسروں سے ممتاز کیے دیتی ہے

آپ کی پہلی سطر سے یہ واضح ہوا کہ آپ نے میری بات کے مقصد کو درست طور پر سمجھا نہیں۔ اور یقیناً یہ میری ہی خامی ہے کہ میں اس طرح سمجھا نہیں سکا جس سے درست ابلاغ ہو سکتا۔
باقی رہی بات یہ کہ اضافیت سے مطلقیت کا سفر کیسے ممکن ہے؟ کوئی کیسے مطلق سچائیوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے؟ تو اس کا بھی کوئی پیمانہ نہیں ہے جسے سائنس بنایا جاسکے۔ یعنی یہ ایسی شئے ہے جس کا زیادہ سے زیادہ انفرادی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اسے مشاہداتی سطح پر ویلیڈیٹ کرنا ممکن نہیں ہے۔ گویا شعور کے جس مقام کو صوفیا یا بڈھسٹ مونکس پاتے ہیں انکی بہت زیادہ تفصیلی سٹڈی موجود نہیں ہے گو کہ اس پر تحقیقات جاری ہیں۔
اگلی بات وجدان کی ہے تو یہ بھی نیورو پلاسٹسٹی سے جنم لینے والا ایک مظہر ہے۔ اور اس میں بھی مشاہدات کی ریلیونسی اپنے موجودہ علوم اور آس پاس کے مشاہدات پر منحصر ہوتی ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ غالبؔ کو کسی رات تھیوری آف ریلیٹیوٹی کا وجدانی مشاہدہ ہو جائے۔ بینزین کا مالیکیولر سٹرکچر صرف کیکیولؔ کو ہی اس کا وجدان عطا کرتا ہے، یہ واردات حافظ شیرازی کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔ اس سے آپ وجدان کی ریلیونسی کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ گویا یہ کوئی ماورائی شئے نہیں ہے۔
اور اگر کسی کانسٹنٹ یا مطلق سچائی کا کوئی مظہر سمجھ میں آ بھی جائے تو اسے ایک تو اپنے موجودہ لسانیاتی نظام (Linguistic System) میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ اور اگر کسی طرح بیان کر بھی دیا گیا تو اس کی تمام تشریحات اضافی ہونگی۔ کیونکہ ہم مطلق کو جان کر اس کا ابلاغ نہیں کر سکتے۔ صرف اس کی تشریحات کر سکتے ہیں۔ جس طرح خالص الہامی کلام میں مطلقیت اور ان کی تمام تر تشریحات میں اضافیت کا عنصر پایا جاتا ہے۔
 

اکمل زیدی

محفلین
خدا کی تلاش میں کھجل و خوار ہونے کے بدلے اگر کوئی متلاشی یہی وقت اپنے اعمال کی حقیقت جاننے میں لگائے ۔

اعمال کی حقیقت پر توجہ بھی تو جب ہے ہوگی ...جب کسی کے سامنے جوابدہی کا یقین ہوگا بات گھوم کر پھر وہیں آجائے گی ...
اس کے باوجود اس بات کا قائل ہوں کہ خدا کے وجود یا غیر وجود کے بارے میں کوئی حتمی دلیل ، ثبوت یا جواز نہیں پیش کیا جاسکتا
تو پھر تو آپ بھی اسی قبیلے کے ہوئے نہ ...اس زاویے سے ..؟؟
جسے مولوی صاحب کہتے ہیں لوگ موبائل، ٹیلیفون، ٹی وی اور انٹرنیٹ میں غرق ہو کر مادیت پسند ہو گئے ہیں

اس پر اعتراض بھی آپ نے اپنے نظریے کے تحت کیا ہے ؟
جب خالق کو اپنی ہی تخلیق سے دور جانا پڑے تو افسوس تو ہوتا ہے۔ اسی ضمن میں کہا تھا۔
واہ کیا بات کی کاش آپ اپنی اس بات کی گہرائی کو سمجھیں ...اور تھوڑا سا تبدیلی کے ساتھ کے جب خلقت ..اپنے خالق سے دور ہورہی ہو تو ...... :)
دخیلات اور معادلات جیسے الفاظ سن کر قے سی آنے لگی ہے۔
حیرت ہوئی ...آپ کو بھی قے ہوتی ہے ...کسی چیز سے ... :)
ادراک کا مطلب بھی تو یہی ہے۔ کہ مجھے اس بات کا ادراک نہیں۔ یعنی اس بات کا علم نہیں۔




دخیلات اور معادلات جیسے الفاظ سن کر قے سی آنے لگی ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اور اگر کسی کانسٹنٹ یا مطلق سچائی کا کوئی مظہر سمجھ میں آ بھی جائے تو اسے ایک تو اپنے موجودہ لسانیاتی نظام (Linguistic System) میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ اور اگر کسی طرح بیان کر بھی دیا گیا تو اس کی تمام تشریحات اضافی ہونگی۔ کیونکہ ہم مطلق کو جان کر اس کا ابلاغ نہیں کر سکتے۔ صرف اس کی تشریحات کر سکتے ہیں۔ جس طرح خالص الہامی کلام میں مطلقیت اور ان کی تمام تر تشریحات میں اضافیت کا عنصر پایا جاتا ہے۔

بہت خوب ! بہت واضح انداز میں اضافیت اور مطلقیت کے بارے میں بتایا ہے ۔ جس بات کا ابلاغ نہیں ہو پایا اس کو بھی اسی طرح سمجھا دیں
 

اکمل زیدی

محفلین
سچ بدلتے رہتے ہیں۔ تبدیلی ہی کو دوام ہے۔
سچ ایک ہے رہتا ہے سچ سمجھنے کے زاویے البتہ بدلتے ہیں
یہی سب سے بڑی آزمائش ہے
۔انسانی ذہن کام ہی تب کرتا ہے جب اس کا وجدان مکمل بیدار ہوتا ہے ۔کونسے شواہد وجدان کو بیدار کرتے ہیں ۔۔۔؟؟؟
وجدانی کیفیت ذہنی بیداری سے ماورائی کیفیت ہے ..بہت ساری عقدے جب وجدان میں کھلتے ہیں تو ذہن انھے سمجھنے سے عاری ہوتا ہے ...اب سوال یہ کے کون سے شواہد اسے بیدار کرتے ہیں تو ...وہ صرف ارتکازی کیفیت ہی ہوسکتی ہے ...
 

اکمل زیدی

محفلین
پھر تو آسمانی مذاہب و الہام و وحی کی بھی قیود انسانی عقل ومنطق ہی پر ہے کہ فلاں آیت قرآنی یا حدیث نبویؐ کی کیا تشریح کرنی ہے ۔ کونسی تشریح درست ہے اور کونسی غلط ہے کا تعین اگر خدا نے ہی کر دینا تھا تو پھر اتنے سارے فرقوں، مسالک اور مکتبہ الفکر کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ داعش کا قرآن بھی وہی ہے جو کسی امن پسند مسلمان کا قرآن ہے۔ یعنی ان دونوں کی اسلامی سمجھ بوجھ کا منبع پھر وہی محدود انسانی عقل و فہم ہی ہےبیشک اسکا ماخذ الہامی کتب ہی کیوں نہ ہوں۔

انسان کو عقل دے دی فیصلے کا اختیار اسے دے دیا ...نیکی بدی سمجھا دی گئی....بارش برسے گی تو گندی جگہ سے تعفن اٹھے گا اور گلستان مہکے گا ...... ( بارش کے پانی میں تو کوئی تعفن یا خوشبو نہیں تھی ) . .
 

اکمل زیدی

محفلین
انسان کے بعض منفی اعمال تو حیوانوں سے بھی بدتر ہیں۔ ایسے میں مذہب کا اسے اشرف المخلوقات کہنا کافی عجیب سا لگتا ہے۔
دوسری جگہ یہی مذہب اسے أَسْفَلَ سَافِلِينَ بھی کہ رہا ہے جو انسانیت کے درجے سے گر جائے
 

اکمل زیدی

محفلین
معاشرے معاشرے میں فرق ہے بھائی۔ آپ مغربی معاشرے میں رہتے ہیں جو صدیوں کے ارتقاء کے بعد اس برداشت کے مقام کو پہنچا ہے۔ جبکہ پاکستانی معاشرے کو آئندہ کچھ صدیاں لگیں گی۔

آپ کا کیا تعلق ان کی اس حالیہ سوچ سے آپ کتنے صدیوں سے وابستہ ہیں ان سے جو ان کے نظریات کی وکالت کر رہے ہیں .... ( اگر مضحکہ خیز ریٹنگ دی نہ پھر میں بغیر پڑھے آپ کی ہر تحریر کو اسی زمرے میں لے آؤنگا )
 

اکمل زیدی

محفلین
خلفاء راشدین اس دنیا سے رخصت ہوئے یا کچھ ولی اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنی زندگی میں ملحد۔۔۔۔۔۔۔موحد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاداریت ۔۔۔۔۔۔۔۔ان سب مدارج سے گزرتے رہے ہیں
آپ سب کو اس مفروضی کٹیگری میں نہیں لا سکتے کچھ پر ایسا دور کبھی نہیں آیا ......
 

اکمل زیدی

محفلین
آج اگر کسی نے دنیا کے تمام انسانوں کو ایک پلیٹ فارم یعنی انٹرنیٹ پر جمع کیا ہے تو وہ صرف سائنسدان ہیں۔ کوئی مفکر، فلاسفر یا رسول نہیں۔
یہ کوئی دلیل نہیں ...یا انسانی کمال نہیں یہ انسانی ضرورت کے تحت سسٹم بنایا گیا ہے ....سائنسدان نے انٹرنیٹ تشکیل دیا مگر ضابطے سائنسدان نہیں دے سکتے
 

اکمل زیدی

محفلین
۔ سوچ پر کونسا درک وا ہوتا ہے یا کونسا ایسا مرحلہ آتا ہے جس سے وہ وجدان سے مدد لیتا ہے ۔
ارتکاز
وجدان تب کام کرتا ہے جب انسان سارے حواس ء خمسہ کو بیک وقت استعمال کرے ۔
حواس خمسہ کا تعلق دیکھنے اور چھونے سے ہے جبکے وجدان ان سے بہت آگے کی چیز ہے .. .
 

نور وجدان

لائبریرین
وجدانی کیفیت ذہنی بیداری سے ماورائی کیفیت ہے ..بہت ساری عقدے جب وجدان میں کھلتے ہیں تو ذہن انھے سمجھنے سے عاری ہوتا ہے ...اب سوال یہ کے کون سے شواہد اسے بیدار کرتے ہیں تو ...وہ صرف ارتکازی کیفیت ہی ہوسکتی ہے ...
ماورائی کیفیت کیا ہوتی ہے ؟ ارتکاز کیا شواہد کو بیان کرتا ہے ؟
حواس خمسہ کا تعلق دیکھنے اور چھونے سے ہے جبکے وجدان ان سے بہت آگے کی چیز ہے .. .

کتنی آگے کی ؟
 

اکمل زیدی

محفلین
ماورائی کیفیت کیا ہوتی ہے ؟ ارتکاز کیا شواہد کو بیان کرتا ہے ؟
دوسرے لفظوں میں اسے الہامی کیفیت کہ لیں ...وہ نکتہ جہاں دل اور دماغ متفق ہو جائیں۔
جہاں آپ کو خود اپنے سوالوں کے جواب ملنا شروع ہو جائیں
 

نایاب

لائبریرین
اعمال کی حقیقت پر توجہ بھی تو جب ہے ہوگی ...جب کسی کے سامنے جوابدہی کا یقین ہوگا بات گھوم کر پھر وہیں آجائے گی ...
میرے محترم بھائی
اگر اعمال کی جوابدہی یا کسی برتر ذات کی جواب دہی کا خوف نہ بھی ہو ۔
جب بھی انسانی ذات سے کوئی عمل صادر ہوتا ہے ۔ تو اس عمل کے مکمل ہو جانے پر وہ اس احساس سے ضرور گزرتی ہے کہ
میرا یہ " عمل " میرے لیئے کس قدر خوشی سکون اور لطف یا پھر کس قدر برا اور مجھے بے چین کرنے والا تھا ۔
اگر وہ انسانی ذات عاقل ہے سمجھدار ہے اور خوشی غمی دکھ درد میں فرق جان سکتی ہے ۔
تو وہ انسانی ذات اس لمحے خود کو مجبور پاتی ہے کہ سوچے میں نے یہ احساس کیوں کر محسوس کیا ۔ ؟
اس سوال کے جواب کی تلاش اسے حقیقت جاننے اور تلاش کرنے پر مہمیز دے گی ۔
جب وہ حقیقت تلاشنے کی راہ نکل پڑے گا تو " روحانی اور جسمانی " کیفیات میں فرق کو جانے گی ۔
وہ دیکھے گا سوچے گا ۔
کہ کچھ عمل ایسے ہیں جنہیں انجام دیتے اسے خود کو بہت سکون ملا ۔ مگر اس سکون کو پانے کے لیئے اسے دوسروں کو دکھ اور نقصان دینا پڑا ۔
اور کچھ عمل ایسے اس کے سامنے ہوں گے جنہیں انجام دیتے اس بہت دکھ درد سے گزرنا پڑا لیکن دوسروں کے لیئے یہ عمل بہت خوشی اور سکون کا باعث بنے ۔
اس پر جسمانی خوشی اور روحانی خوشی کا فرق کھل جائے گا ۔
اور اس مقام پر " وجدان " اس کی سوچ کو خیال کی پرواز دے گا ۔
اور عین ممکن ہے کہ اس پر سچی آگہی " کا در کھل جائے ۔
اور وہ اس حقیقت کو جان لے کہ
مجھے " کسی برتر " ذات کو اپنے عمل کا حساب دینا ہے ۔۔۔۔۔
یا پھر وہ اس ؔ حقیقت " کو جان لے کہ " میں " ہی حقیقت ہوں ۔۔۔۔۔
یہ جو کلمہ طیبہ میں " لا " ہے نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی نفی ہے میرے محترم بھائی
اور " الا " کی قید میں چھپی ہے سچائی ۔
بہت دعائیں
 

اکمل زیدی

محفلین
میرے محترم بھائی
اگر اعمال کی جوابدہی یا کسی برتر ذات کی جواب دہی کا خوف نہ بھی ہو ۔
جب بھی انسانی ذات سے کوئی عمل صادر ہوتا ہے ۔ تو اس عمل کے مکمل ہو جانے پر وہ اس احساس سے ضرور گزرتی ہے کہ
میرا یہ " عمل " میرے لیئے کس قدر خوشی سکون اور لطف یا پھر کس قدر برا اور مجھے بے چین کرنے والا تھا ۔
اگر وہ انسانی ذات عاقل ہے سمجھدار ہے اور خوشی غمی دکھ درد میں فرق جان سکتی ہے ۔
تو وہ انسانی ذات اس لمحے خود کو مجبور پاتی ہے کہ سوچے میں نے یہ احساس کیوں کر محسوس کیا ۔ ؟
اس سوال کے جواب کی تلاش اسے حقیقت جاننے اور تلاش کرنے پر مہمیز دے گی ۔
جب وہ حقیقت تلاشنے کی راہ نکل پڑے گا تو " روحانی اور جسمانی " کیفیات میں فرق کو جانے گی ۔
وہ دیکھے گا سوچے گا ۔
کہ کچھ عمل ایسے ہیں جنہیں انجام دیتے اسے خود کو بہت سکون ملا ۔ مگر اس سکون کو پانے کے لیئے اسے دوسروں کو دکھ اور نقصان دینا پڑا ۔
اور کچھ عمل ایسے اس کے سامنے ہوں گے جنہیں انجام دیتے اس بہت دکھ درد سے گزرنا پڑا لیکن دوسروں کے لیئے یہ عمل بہت خوشی اور سکون کا باعث بنے ۔
اس پر جسمانی خوشی اور روحانی خوشی کا فرق کھل جائے گا ۔
اور اس مقام پر " وجدان " اس کی سوچ کو خیال کی پرواز دے گا ۔
اور عین ممکن ہے کہ اس پر سچی آگہی " کا در کھل جائے ۔
اور وہ اس حقیقت کو جان لے کہ
مجھے " کسی برتر " ذات کو اپنے عمل کا حساب دینا ہے ۔۔۔۔۔
یا پھر وہ اس ؔ حقیقت " کو جان لے کہ " میں " ہی حقیقت ہوں ۔۔۔۔۔
یہ جو کلمہ طیبہ میں " لا " ہے نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی نفی ہے میرے محترم بھائی
اور " الا " کی قید میں چھپی ہے سچائی ۔
بہت دعائیں
محترم بلکل صحیح کہا مگر میں یہاں یہاں کے مخاطبین کے حساب سے بات کی تھی ...بات تو آپ کی سولہ آنے درست ہے ...مگر یہ نکتہ ...یہاں کے پر دلیل لوگوں پر کھلے تو نہ
 
Top