ای۔میل لسٹ

مجھ سے کسی نے ذکر کیا کہ اگر آپ کو کوئی چیز بہت سے ای۔میل ایڈریس پر بھیجنی ہو تو اس کے لیے ای۔میل ایڈریس ملتے ہیں۔۔۔۔ یعنی سیکڑوں ای۔میل ایڈریس پر مشتمل فہرست مل جاتی ہے جنہیں آپ ای۔میل کرسکتے ہیں۔ کیا واقعی یہ ممکن ہے؟ اگر ہاں تو کیسے اور کہاں سے یہ فہرست حاصل کی جاسکتی ہے؟ کیا یہ قانونی ہوگا؟

راہنمائی فرمائیں۔
 
مجھ سے کسی نے ذکر کیا کہ اگر آپ کو کوئی چیز بہت سے ای۔میل ایڈریس پر بھیجنی ہو تو اس کے لیے ای۔میل ایڈریس ملتے ہیں۔۔۔۔ یعنی سیکڑوں ای۔میل ایڈریس پر مشتمل فہرست مل جاتی ہے جنہیں آپ ای۔میل کرسکتے ہیں۔ کیا واقعی یہ ممکن ہے؟ اگر ہاں تو کیسے اور کہاں سے یہ فہرست حاصل کی جاسکتی ہے؟ کیا یہ قانونی ہوگا؟

راہنمائی فرمائیں۔

کچھ ایسے اطلاع میرے پاس بھی ہے مگر یہ نہیں پتا کہ اس میں کہاں تک صداقت ہے، کیونکہ مجھے خود کچھ ایسی میلز ملتی ہیں جو اجنبی لوگوں کی طرف ملتی ہیں، اگر ایسا ہو تو پلیز ضرور بتاییں
 

فہیم

لائبریرین
ہوتا کچھ اس طرح ہے کہ اگر آپ نے اپنا ایڈریس کسی جگہ شئیر کیا ہوا ہے۔
جیسے کہ اردو محفل کو ہی لے لیں یہاں بھی آپ اپنا ای میل شئیر کرسکتے ہیں اگر آپ چاہیں تو
اس طرح آپ کا ایڈریس کافی لوگوں کی نظروں میں آتا ہے۔

یا کبھی کبھی کوئی انسان اپنے پاس ایڈ تمام ایڈریس کی ایک لسٹ بناکر کسی دوست کو دوستی کے ناطے دے جاتے ہیں۔

اور بھی بہت سے طریقے ہوتے ہیں جن کے ذریعے ای میل کافی جگہوں پر پہنچ جاتا ہے۔


لیکن جہاں تک ای میل ملنے کا سوال ہے
کہ آپ کو کوئی ای میل لسٹ نیٹ سے مل جائے

تو ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
پاکستان میں کچھ حضرات نے ایسی لسٹ بنا رکھی ہے اور وہ باقاعدہ اس کو بیچتے ہیں۔

پچھلے دنوں غالباً شاکر بھائی نے کہیں ذکر کیا تھا کہ کوئی صاحب ایسی لسٹ بیچنے کو تیار ہیں۔ جس کی قیمت انہوں نے دس ہزار روپے مانگی تھی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پاکستان میں تو یہ کام ابھی شاید ابتدائی مراحل میں ہے لیکن ترقی یافتہ ملکوں میں تو الامان, spam یا junk ای میلز روزانہ کروڑوں کے حساب سے سافٹ ویئرز کی مدد سے بھیجی جاتی ہیں۔ ای میلز ایڈریسز کے باقاعدہ ڈیٹا بیس ہوتے ہیں جو کہ فروخت ہوتے ہیں۔ بس آپ کا اپنا ای میل ایڈریس کسی 'پاپولر' یا 'فری' سائٹ پر دینے کی دیر ہے کہ بس ای میلز کی بر مار ہو جاتی ہے۔

میرا ذاتی تجربہ ہے، ابھی میں جس کمپنی میں کام کر رہا ہوں وہاں مجھ سے پہلے لوگوں نے شاید جگہ جگہ کمپنی کے ای میل ایڈریسز دے دیئے تھے اور اب روزانہ بلا مبالغہ ہزاروں کے حساب سے ای میلز آتی ہیں، میں تو زچ ہو جاتا ہوں پڑھے بغیر ڈیلیٹ کرتے کرتے۔ ایسی میلز کو روکنے کیلیئے سافٹ ویئرز بھی استعمال ہوتے ہیں اور فلٹرز بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی نہ کوئی چیز فروخت کرنے والی میل آپ تک پہنچ ہی جاتی ہے۔

یہ کام ابھی تک شاید پوری دنیا میں 'قانونی' ہے، میں نے کچھ عرصہ پہلے پڑھا تھا کہ امریکی کانگریس اس چیز کو روکنے کے لئے قانون سازی کرنے والی ہے لیکن شاید ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوا۔
 
ہاں ایسی بہت سی ای میل تو مجھے بھی ملتی ہے۔ جس میں لکھا ہوتا ہے کہ یہ بندہ یا بندہ فلاں بنک میں مینجر ہے اور آپ کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتا/چاہتی ہے۔ اور نیچے کسی افریقی ملک کا ایڈرس بھی لکھا ہوتاہے۔ اب ان کے پاس میرا آئی ڈی کہاں سے آیا؟
 

رند

محفلین
جناب آپ نے بہت اچھا سوال کیا ہے میں اس میں اسی کے متعلق ایک سوال کا اضافہ کرنا چاہوں گا وہ کہ میں نے کافی سارے فورمز پہ رکنیت اختیار کی ہوئی ہے اور اکثر ان کے ایڈمن کی طرف سے میل آتا ہے جو اس فورم میں ہونے والے کسی خاص فنکشن کے متعلق ہوتا ہے اور اس میں ٹو والے خانے میں یعنی جہاں پہ اس شخص کا ای میل لکھتے ہیں جس کو میل بھیجنا ہو تو وہاں بہت سارے ای میل ایڈریس ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک میرا ہوتا ہے یہ کس طرح ہوتا ہے یاہو میں تو ایک ہی میل دو سے زاہد میل ایڈریس پہ سنڈ نہیں کرسکتے لیکن یہاں کیوں ایک ہی میل اتنے زیادہ ایڈریسس پہ سنڈ کیا ہوتا ہے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
ہاں ایسی بہت سی ای میل تو مجھے بھی ملتی ہے۔ جس میں لکھا ہوتا ہے کہ یہ بندہ یا بندہ فلاں بنک میں مینجر ہے اور آپ کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتا/چاہتی ہے۔ اور نیچے کسی افریقی ملک کا ایڈرس بھی لکھا ہوتاہے۔ اب ان کے پاس میرا آئی ڈی کہاں سے آیا؟

ای میل لسٹ سے آپ کا ایڈریس انہیں‌ ملتا ہے۔ باقی یہ سب فراڈ ہوتی ہیں۔ ان سے بچ کر رہیئے گا

اس کے علاوہ فارورڈ شدہ ای میلوں سے بچیں۔ اگر انہیں‌ آگے بھیجنا بھی ہو تو متن اور دیگر جگہوں سے غیر ضروری ای میل ایڈریس ہٹا کر آگے بھیجیں۔ اسی طرح‌ ایک سے زیادہ ایڈریس پر بھیجنا ہو تو تمام دیگر ایڈریسز کو BCC یعنی Blind Carbon Copy میں‌لکھ کر بھیجیں۔ اس طرح‌کوئی فرد دوسرے کا ای میل ایڈریس نہیں‌دیکھ سکے گا۔ اسی طرح‌اپنے دوستوں‌کو بھی مشورہ دیں‌کہ وہ آپ کو ای میل بھیجتے ہوئے بی سی سی کا استعمال کریں
 
یہ لیجئے مندرجۃ ذیل ای میل کچھ اسی نوعیت کی ہے ۔ جو مجھے اکثر و بیشتر موصول ہوتی رہتی ہے۔


DEAR FRIEND.

YOU DONT KNOW ME AND I DONT KNOW YOU BUT I BELEIVE YOU ARE A MUSLIM AND
WITH THAT WE ARE FAMILY.
I BELEIVE YOU WILL FEAR ALLAH AND FEAR THE PUNISHMENT OF THE GRAVE.
YOU KNOW ANY ONE WHO PROMISE AND FAIL HAVE A GREAT PUNISHMENT FROM
ALLAH AND HE WILL BE PUNISH IN THIS LIFE AND IN HEAVEN.
I WANT TO EXPOSE A SECRET TO YOU AND THIS SECRET I WANT YOU AND ME WITH
THE POOR ONCE TO BENEFIT FROM THIS SECRET BUT I WILL NOT TELL YOU ALL
THE DETAILS BY NOW UNTILL YOU HAVE A PROMISE WITH ME THAT YOU WILL NOT
BETRAY ME.

I WORK WITH THE UNICEF AND AM ONE OF THE DIRECTOR IN HIGHER POST THERE.
LAST NOVEMBER 2007 THERE IS A BROTHER CONTRACTOR FROM EYGPT.HE WAS
APPROVE A CONTRACT OF 31MILLION US DOLLAR UNDER A PROGRAMM SPONSORED BY
PTF AND WFP UNDER OUR OFFICE UNICEF.
HE EXECUTE THIS CONTRACT SUCCESFULLY BUT ALONG THE EXECUTION OF THIS
CONTRACT HE WAS ATTACK OF HEART DECEASE AND HE DIED BUT NO ONE KNOWS
EXPECT ME BECAUSE WHEN HE WAS IN HOSPITAL HE CALL ME AND WHEN HE DIE THE
DOCTOR CALL ME BECAUSE WE ARE GOOD FRIENDS.

HE DID NOT GIVE ME HIS FAMILY ADDRESS AND ALL MY EFFORT TO FIND HIS
FAMILY WAS IN FUTILE.
NOW IF HE DID NOT APPEAR TO HAVE HIS MONEY WITH US BEFORE 14TH OF
FEBRUARY. HIS CHEQUE WILL BE EXPIRED BECAUSE HE SUPPOSE TO HAVE COLLECT HIS
CHEQUE SINCE 3 MONTHS AGO BUT SINCE HE WAS SICK HE CAN MAKE IT
UP.INALILAHI WAINA ROJUNA.
MAY ALLAH PUT ME IN RIGHT PATH.

NOW ONE KNOW THAT HE HAVE DIED AND HIS CONTRACT PROFILE IS WITH ME AND
IN HIS CONTRACT PROFILE HE WAS A PATNERSHIP BUSSINESS ALTHOUGH HE WAS
ONLY HIM.
I CAN DO ALL THE POSSIBLE BEST TO SEE YOU CLAIM THIS MONEY AS YOURS.AND
IT WILL BE EASY BECAUSE YOU WILL CLAIM TO BE THE PATNER OF THIS LATE
BROTHER.
IF YOU CAN GIVE ME A GURANTEE THAT YOU WILL NOT BETRAY ME.THEN I WILL
GIVE YOU ALL THE DETAILS.

IF YOU HAVE INTRESTED YOU CAN ALSO CONTACT ME AT THIS EMAIL BELOW
aelhadjimusa@yahoo.fr
THEN I WILL GIVE YOU ALL THE FULL DETAILS


La carrera hacia la Casa Blanca, a un click de distancia http://www.starmedia.com/noticias/especiales/gobiernousa.html
 
Top