فرخ منظور
لائبریرین
اے اہلِ نظر، سوز ہمیں، ساز ہمیں ہیں
عالم میں پسِ پردہِ ہر راز ہمیں ہیں
منسوب ہمیں سے ہیں گُل و مُل کی روایات
جو شوق بھی ہو، نقطہِ آغاز ہمیں ہیں
اے شاہدِ کونین اٹھا پردہِ اسرار
اب خلوتیانِ حرمِ ناز ہمیں ہیں
اے جبرِ مشیّت، بہمہ بے پروبالی
اب بھی ہے جنھیں ہمتِ پرواز ،ہمیں ہیں
مے خوار سہی ہم، مگر اے زاہدِ خود بیں
اس شہر میں اخلاص کی آواز ہمیں ہیں
یہ رتبۂ عالی نہیں ہر ایک کا مقسوم
رندی کا ملا ہے جنہیں اعزاز، ہمیں ہیں
مے خانے میں چلتا نہیں اعجاز کسی کا
کچھ ہیں تو یہاں صاحبِ اعجاز، ہمیں ہیں
خوش ہیں، کہ نہیں اُس ستم آرا کا ستم عام
نازاں ہیں کہ اُس کے حدفِ ناز ہمیں ہیں
دنیا سے جو نسبت تھی تو گم نام رہے ہم
اب تجھ سے جو نسبت ہے تو ممتاز ہمیں ہیں
وہ انجمنِ نازِ بُتاں ہو کہ سر ِ دار
جس سمت سے گزرے ہیں، سرافراز ہمیں ہیں
مے خانے میں ہوتا ہے دمِ رقص یہ معلوم
جبریل کے گویا پرِ پرواز ہمیں ہیں
دیکھیں جو کسی اور طرف بھی وہ سرِ بزم
مقصودِ نگاہِ غلط انداز ہمیں ہیں
اے گیسُوئے برہم، جو سزا دے تو ہمیں دے
ہاں بے ادبِ انجمن ِ ناز ہمیں ہیں
ہم ہوش میں جب تک تھے، تمہیں راز میں رکھّا
بے خود ہیں تو اب پردہ درِ راز ہمیں ہیں
کل رات اُٹھائی تھی تری زُلف نے تمہید
اب شوق کا دیباچہ و آغاز ہمیں ہیں
تھا قفل زباں پر، مگر اب دید سے تیری
طُوطی کی طرح زمزمہ پرداز ہمیں ہیں
ہر چیز زمانے کی ہمیں سے ہے عبارت
سینے میں ہے کونین کے جو راز، ہمیں ہیں
تحریر جو خالق نے کیا لوحِ ازل پر
اُس بابِ پُراسرار کا آغاز ہمیں ہیں
جبریل جہاں بال کُشا ہو نہیں سکتا
اُس اوج پہ سرگرمِ تگ و تاز ہمیں ہیں
اے شاہدِمعنٰی صفِ شیریں سخناں میں
ہے کوئی اگر شاعرِ طنّاز، ہمیں ہیں
اے جانِ ظفرؔ، حافظ و سعدی کی قفا میں
اب وارثِ مے خانہِ شیراز ہمیں ہیں
(سراج الدین ظفرؔ)
عالم میں پسِ پردہِ ہر راز ہمیں ہیں
منسوب ہمیں سے ہیں گُل و مُل کی روایات
جو شوق بھی ہو، نقطہِ آغاز ہمیں ہیں
اے شاہدِ کونین اٹھا پردہِ اسرار
اب خلوتیانِ حرمِ ناز ہمیں ہیں
اے جبرِ مشیّت، بہمہ بے پروبالی
اب بھی ہے جنھیں ہمتِ پرواز ،ہمیں ہیں
مے خوار سہی ہم، مگر اے زاہدِ خود بیں
اس شہر میں اخلاص کی آواز ہمیں ہیں
یہ رتبۂ عالی نہیں ہر ایک کا مقسوم
رندی کا ملا ہے جنہیں اعزاز، ہمیں ہیں
مے خانے میں چلتا نہیں اعجاز کسی کا
کچھ ہیں تو یہاں صاحبِ اعجاز، ہمیں ہیں
خوش ہیں، کہ نہیں اُس ستم آرا کا ستم عام
نازاں ہیں کہ اُس کے حدفِ ناز ہمیں ہیں
دنیا سے جو نسبت تھی تو گم نام رہے ہم
اب تجھ سے جو نسبت ہے تو ممتاز ہمیں ہیں
وہ انجمنِ نازِ بُتاں ہو کہ سر ِ دار
جس سمت سے گزرے ہیں، سرافراز ہمیں ہیں
مے خانے میں ہوتا ہے دمِ رقص یہ معلوم
جبریل کے گویا پرِ پرواز ہمیں ہیں
دیکھیں جو کسی اور طرف بھی وہ سرِ بزم
مقصودِ نگاہِ غلط انداز ہمیں ہیں
اے گیسُوئے برہم، جو سزا دے تو ہمیں دے
ہاں بے ادبِ انجمن ِ ناز ہمیں ہیں
ہم ہوش میں جب تک تھے، تمہیں راز میں رکھّا
بے خود ہیں تو اب پردہ درِ راز ہمیں ہیں
کل رات اُٹھائی تھی تری زُلف نے تمہید
اب شوق کا دیباچہ و آغاز ہمیں ہیں
تھا قفل زباں پر، مگر اب دید سے تیری
طُوطی کی طرح زمزمہ پرداز ہمیں ہیں
ہر چیز زمانے کی ہمیں سے ہے عبارت
سینے میں ہے کونین کے جو راز، ہمیں ہیں
تحریر جو خالق نے کیا لوحِ ازل پر
اُس بابِ پُراسرار کا آغاز ہمیں ہیں
جبریل جہاں بال کُشا ہو نہیں سکتا
اُس اوج پہ سرگرمِ تگ و تاز ہمیں ہیں
اے شاہدِمعنٰی صفِ شیریں سخناں میں
ہے کوئی اگر شاعرِ طنّاز، ہمیں ہیں
اے جانِ ظفرؔ، حافظ و سعدی کی قفا میں
اب وارثِ مے خانہِ شیراز ہمیں ہیں
(سراج الدین ظفرؔ)