ہم راستہ بھول چکے ہیں
میرے اس مقالے کا مقصد کسی پر تنقید براءے تنقید کرنا ہر گز نہیں بلکہ ایک پیغام پہنچانا ہے ، ہمارے معاشرے میں کتنے افراد ایسے ہیں کہ جب ان سے شرعی ، اخلاقی یا معاشرتی غلطی یا بے راہ روی کی آفت کا تذکرہ کیا جات ہے یا شریعت کے تقاضو ں کے لحاظ کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو بڑی دیدہ دلیری سے کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں دینداروں کو صرف حکم لگانے کی جستجو رہتی ہے ، تعلیم وارشاد کا کاہیں کوءی نہ تو پروگرام موجود ہے اور نہ ہی ہم میں اس ذمہ داری اٹھانے کی صلاحیت باقی رہی ، کیونکہ ہمارے معاشرے کا آوے کا آوا بگڑ چکاہے ۔
حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانان پاکستان انگریزی استعمار میں رہنے کی بدولت اور بعد ازحصول آزادی تاریخ اسلام سے یکسر دور ہوگئے کیونکہ ہم نے یہ ملک حاصل تو کرلیا لیکن نئی سرزمین میں آزادی کا سانس لینے کے بعد سب سے پہلے ہماری ترجیحات بدل گںگئ، اسلام پسندی کی جگہ مصلحت پسندی نے لے لی ، قانون کی جگہ جنگل کا قانون لاگو ہوگیا، جمہوریت کی جگہ آمریت آگئی ، آئین کی جہ مفادیاتی ترمیمات نے لے لیں، رفاہ عامہ ، فلاح وبہبود کی جگہ لوٹ مار نے لے لی ، میرٹ کی جگہ سفارش اور اقربا پرور نے لے لی ، خود ساختہ پالیسی کی جگہ ریڈی میڈ ایمپورٹڈ پالیسی نے لے لی ، عوامی نمائندوں کی گدی پر انگریز کے خادم براجمان ہوئے یوں ایک طرف حریت کا خون ہوا اور دوسری جانب لاقانونیت ، رشوت ستانی ، اقربا پروری اور سفارش کا راج ہوا۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حصول آزادی کے بعد بر صغیر کے کونے کونے سے ارض پاکستان میں جمع ہونے والے ہیرے لاقانونیت ، زیادتی ، ٹیلنٹ کی ناقدری ، صلاحیتوں کے استحصال اور خانگی سازشوں کی بدولت دشمنوں کے شہروں میں نیلام ہوئے ، کچھ کو ہالینڈ لے گیا ، کسی کو برطانیہ کسی کو اٹلی کسی کو امریکہ اور کسی کو روس نے خرید لیا یوں ہمارے گھر کے باصلاحیت افراد غیر ارادی طورپر یا پھر بمجبوری اس گھر کی دیواریں کھوکھلی کرنے میں اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کا ہاتھ بٹاتے رہے ۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
یوں پاکستان میں دو طبقات رہ گئے، ایک حکمرانوں کا دوسرا عوام کا ، حکمرانوں کی اکثریت برطانوی وظیفہ خوروں کی اولاد میں سے تھی جبکہ عوام جاہل اور ظلم وجور کی طویل رات کاٹ کر تھکے ہارے مسافر کی طرح منزل پر پہنچ کر طویل آرام طلب بن چکی تھی ۔ نتیجتا ملک کی باگ ڈور بے صلاحیت افراد کے ہاتھوں میں چلی گئی اور عوام تو "الناس علیٰ دین ملوکہم " کے مصداق ہمیشہ سے حکمرانوں کی اندھی تقلید کرتی آئی ہے ، حکمران اگر فن پرست ہوتو ہر گھر فن کدہ میں بدل جاتاہے ،اور حکمران اگر شرابی ہوتو ہر گلی میں میخانے کھل جاتے ہیں اور اگر حکمران عادل ہوتو بھیڑ اور بھیڑیا ایک ہی تالاب سے پانی پیتے دیکھے گئے ہیں۔
وقت نے ترجیحات بدل ڈالیں اور ہم وقت سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے اور ہم نے اپنے گلے سے ثقافتی روایات ، مذہبی رسومات ، اسلامی عقائد اور اسلامی قانون حکمرانی کے طوق کو قصۂ نیم شب گردان کر پس پشت ڈال دیا اور ہر صبح مغرب میں جاڈوبتے سورج کے پیچھے سرنگوں اور سجدہ ریز ہوتے رہے ۔ حکمران بدلے نہیں عوام نے سوچا نہیں ۔
جب عوام میں آفاقی سوچ کا فقدان ہوجاتاہے تو لوگوں کو شیطانی خیالات گھیرنے لگتے ہیں ۔ تبہی تو مہاجر خنجر بردار ہوءے ، پٹھان کمیونزم کے فریب میں آگئے، بلوچ مغرب زدہ ہوئےجبکہ سندھی اور سرائیکی قومیت اور عدم برداشت اور زمین کے دائرے تنگ کرنے کے مرض میں ایسے مبتلاہوئے کہ یہ سب کیڑے مل کر ہمارے آباؤ اجداد کے چھے لاکھ کے پاکیزہ خون سے حاصل کردہ اس مملکت کو دیمک کی طرح چاٹنے لگے ہیں۔
علماء تو ویسے بھی بیچارے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی تگ ودو میں ہیں ، حکمرانوں نے انہیں محروم تماشا رکھا ، میڈیا ان پر دن رات کیچڑ اچھالتا رہا ، مغرب زدہ مفکرین ان کی تنقیص شان کے مرض میں مبتلا رہے جبکہ عوام نماز ، جنازہ ، ختم اور تعویزات وفتاویٰ میں ان کی سرپرستی تلے آجاتے لیکن کاروبار ، شادی ، عیاشی ، تعلقات اور وضع قطع میں ان سے بیزار جبکہ امریکی گاؤ بانوں کے پکے مقلد ہوئے۔
اب آپ ہی سوچئے اس ملک میں کسی کی دال گلے تو کیسے اور کیوں کر گلے۔۔!!
کیونکہ ہر فرد اور ہر جماعت دوسرے پر حاوی ہونے ، اپنی طاقت جتانے اور حصول مراعات میں ایسے اقدامات کر گزرتی ہے کہ جنگ عظیم کے جرائم ان کے جرائم کے سامنے ہیچ نظر آنے لگتے ہیں۔
ہم پستی کے اس گہری کھائی میں کیسے آگرے ؟ کیا کسی نے اپنی زندگی کے چند لمحات کو اس نازک مسئلے پر سوچنے کیلئےوقف کرنے کوشش کی ہے ؟ یقینا نہیں ، کیونکہ سود خور حلال خوری کے بارے میں کیسے سوچ سکتاہے ! شباب وکباب کا رسا پاکدامنی کی لذت کیا جانے ! نیم برہنہ عورت لذت ِ حیا واستتار کیا جانے ! صلیب کا دیوانہ ہلال گنبد خضرا کی رنگینی کیسے ملاحظہ کرسکتاہے ، سازشی ، حاسد اور بے غیرت معاشرہ کبھی امن ، محبت اور ہم آہنگی کی لذت نہیں پاسکتا ۔
میرے پیارے عزیزاز جان قاری در حقیقت ہم راستہ بھول چکے ہیں ، کون سا رستہ بھلا۔۔۔؟
ہم قوت جذبۂ قربانی کا رستہ بھول کے باہمی تناحرانہ نفریں آمیز وادیوں میں کھو گئے ہیں۔
ہم مکین گنبد خضریٰ کے زریں اصولوں سے مرصع راستہ بھول کے یورپ کی بے آب وگیاہ گھاٹیوں میں بھٹک گئے ہیں۔
ہم نے ذاتی مفادات اور خوشامدی تہذیب اپنایا ہوا ہے ، جبکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے شجاعت بھرے فدائی جذبات کو فراموش کردیا ہے ۔
ہم نے آئین محمدی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو پس پشت ڈال دیا ، یوں ہمیں آئین سازی اور پالیسی سازی میں نصرانی دستر خوان کے بچے ہوئے ٹکڑے کھانے پڑے ۔
ہم نے قانون الہٰی کو بازیچۂ اطفال سمجھا، یوں تقدیر نے ہمارے ہر اتحاد کو بے ترتیبی اور ہر لائحہ عمل کو لا لائحہ اور ہر عمل کو لا عمل کی عملی تصویر میں بدل ڈالا۔
ہمیں یہ ملک ہمارے اسلاف نے اپنے خون سے اس کی سرحدی لکیریں کھینچ کر حوالے کیا اور ہم نے اپنے ہی بھائیوں اور بہنوں کو چند ٹکوں کے عوض اپنے دیرینہ دشمنوں کے آگے ڈال دیا اور یہ تک نہ سوچا کہ کل حوض کوثر پر حضور نبی کریم ﷺ کیا جواب دیں گے ۔
آج ہم حضور نبی کریم ﷺ کی شفاعت کے طلبگار اور یقین کی کیفیت میں سرشار خراماں خراماں جی رہے ہیں لیکن ہم نے کبھی یہ بھی سوچا کہ کل روز محشرجب ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور انکے ہمراہ ہماری سینکڑوں بیٹیاں جب حضور نبی کریم ﷺ کا دامن مبارک تھام کر کانپتے ہاتھوں اور بہتی آنکھوں سے وہ غیرت سوز واقعات اور حالات سامنے لائیں گی جن کے ذمہ دار ہمارے حکمران بدرجہ اول اور ہم عوام بدرجہ دوم ہیں تو آپ صرف تصور کیجئے کہ حضور نبی کریم ﷺ کی باحیا ء ، ٹھنڈک بخش ، رحم وکرم سے مرصع آنکھوں کا کیا منظر ہوگا۔ ان کے حسین از قمر وگلاب وعنبر و یاسمین چہرے پر کیسا رد عمل ظاہر ہوگا۔ !!!
ہم تو ان کی امت پروری ، عطف ورحم ، نرم دلی کے چرچے کرتے کرتے نہیں تھکتے اور نہ ہی شرم ہمیں آتی ہے لیکن کبھی تنہائی میں ان مناظر کو بھی مد نظر رکھیں کہ حضور نبی کریم ﷺ حوض پر مع اصحاب رضی اللہ عنہم رونق افروز ہونگے مسلمانوں کی جماعتیں فوج در فوج آتی جائینگی اور کاسہ دل ونظر کو فیضان ِ عطف وکرم وعطا وشفاعت و آب زمزم سے بھرتے جائیں گے یہاں تک اہم پاکستان کی باری آئیگی ہمارے آباو اجداد تشریف لائینگے ان کی زبانوں پر ایک ہی نعرہ ہوگا۔۔۔۔ کلنا فداک یا رسول اللہ ( ﷺ ) ۔۔۔۔۔ پاکستان کا مطلب کیا ۔۔ لا الہ الا اللہ ۔۔۔۔۔ان پر کرم ہوگا ، ان کے چہرے دیکھ کر حضور نبی کریم ﷺ کا چہرہ خوشی سے اور محبت سے کھل اٹھے گا اور اپنے مکی دور کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگی یاد آئیگی ، انہیں ہجرت کے سکت لمحات یاد آئینگے ، انہیں استقبال مدینہ یاد آئیگا ، پھر مدینہ منورہ کا دور حکمرانی یاد آئیگا ، یوں حضور نبی کریم ﷺ کو اپنے صحابہ کی مثیل اہل ہند کے مجاہدین حریت کے چہروں میں نظر آئیگی ، حضور نبی کریم ﷺ اپنے مبارک ہاتھوں سے کاسہ کرم بھر بھر کر انہیں عطا کرتے جائینگے ۔
ان مبارک ہستیوں کے بعد ہم اہل پاکستان کی باری آئیگی ، یوں ہم کالے چہرے لئے ، کالے کرتوت کے دفاتر ہاتھوں میں تھامے ، انتہائی شرمسار ، بے ناموس ، غیروں کے قدر دان اپنوں سے متنفر آگے آگے ہمارے نا اہل حکمران اور پیچھے پیچھے ہم ہونگے ، حضور نبی کریم ﷺ ہماری طرف یک نظر نہ دیکھیں گے ، یکسر نظر انداز کردینگے ، لیکن حضور کو رحم وشفقت کا ھالہ آگھیرے گا لیکن قوم کے مجاہدین ، قوم کی بیٹیاں اور بیٹے حضور نبی کریم کا دامن رحمت پکڑے فریاد کرینگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یارسول اللہ ( ﷺ ) ہم ۔۔۔۔!!!
اے اہل پاکستان ہم راستہ بھول چکے ہیں۔
میرے اس مقالے کا مقصد کسی پر تنقید براءے تنقید کرنا ہر گز نہیں بلکہ ایک پیغام پہنچانا ہے ، ہمارے معاشرے میں کتنے افراد ایسے ہیں کہ جب ان سے شرعی ، اخلاقی یا معاشرتی غلطی یا بے راہ روی کی آفت کا تذکرہ کیا جات ہے یا شریعت کے تقاضو ں کے لحاظ کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو بڑی دیدہ دلیری سے کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں دینداروں کو صرف حکم لگانے کی جستجو رہتی ہے ، تعلیم وارشاد کا کاہیں کوءی نہ تو پروگرام موجود ہے اور نہ ہی ہم میں اس ذمہ داری اٹھانے کی صلاحیت باقی رہی ، کیونکہ ہمارے معاشرے کا آوے کا آوا بگڑ چکاہے ۔
حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانان پاکستان انگریزی استعمار میں رہنے کی بدولت اور بعد ازحصول آزادی تاریخ اسلام سے یکسر دور ہوگئے کیونکہ ہم نے یہ ملک حاصل تو کرلیا لیکن نئی سرزمین میں آزادی کا سانس لینے کے بعد سب سے پہلے ہماری ترجیحات بدل گںگئ، اسلام پسندی کی جگہ مصلحت پسندی نے لے لی ، قانون کی جگہ جنگل کا قانون لاگو ہوگیا، جمہوریت کی جگہ آمریت آگئی ، آئین کی جہ مفادیاتی ترمیمات نے لے لیں، رفاہ عامہ ، فلاح وبہبود کی جگہ لوٹ مار نے لے لی ، میرٹ کی جگہ سفارش اور اقربا پرور نے لے لی ، خود ساختہ پالیسی کی جگہ ریڈی میڈ ایمپورٹڈ پالیسی نے لے لی ، عوامی نمائندوں کی گدی پر انگریز کے خادم براجمان ہوئے یوں ایک طرف حریت کا خون ہوا اور دوسری جانب لاقانونیت ، رشوت ستانی ، اقربا پروری اور سفارش کا راج ہوا۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حصول آزادی کے بعد بر صغیر کے کونے کونے سے ارض پاکستان میں جمع ہونے والے ہیرے لاقانونیت ، زیادتی ، ٹیلنٹ کی ناقدری ، صلاحیتوں کے استحصال اور خانگی سازشوں کی بدولت دشمنوں کے شہروں میں نیلام ہوئے ، کچھ کو ہالینڈ لے گیا ، کسی کو برطانیہ کسی کو اٹلی کسی کو امریکہ اور کسی کو روس نے خرید لیا یوں ہمارے گھر کے باصلاحیت افراد غیر ارادی طورپر یا پھر بمجبوری اس گھر کی دیواریں کھوکھلی کرنے میں اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کا ہاتھ بٹاتے رہے ۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
یوں پاکستان میں دو طبقات رہ گئے، ایک حکمرانوں کا دوسرا عوام کا ، حکمرانوں کی اکثریت برطانوی وظیفہ خوروں کی اولاد میں سے تھی جبکہ عوام جاہل اور ظلم وجور کی طویل رات کاٹ کر تھکے ہارے مسافر کی طرح منزل پر پہنچ کر طویل آرام طلب بن چکی تھی ۔ نتیجتا ملک کی باگ ڈور بے صلاحیت افراد کے ہاتھوں میں چلی گئی اور عوام تو "الناس علیٰ دین ملوکہم " کے مصداق ہمیشہ سے حکمرانوں کی اندھی تقلید کرتی آئی ہے ، حکمران اگر فن پرست ہوتو ہر گھر فن کدہ میں بدل جاتاہے ،اور حکمران اگر شرابی ہوتو ہر گلی میں میخانے کھل جاتے ہیں اور اگر حکمران عادل ہوتو بھیڑ اور بھیڑیا ایک ہی تالاب سے پانی پیتے دیکھے گئے ہیں۔
وقت نے ترجیحات بدل ڈالیں اور ہم وقت سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے اور ہم نے اپنے گلے سے ثقافتی روایات ، مذہبی رسومات ، اسلامی عقائد اور اسلامی قانون حکمرانی کے طوق کو قصۂ نیم شب گردان کر پس پشت ڈال دیا اور ہر صبح مغرب میں جاڈوبتے سورج کے پیچھے سرنگوں اور سجدہ ریز ہوتے رہے ۔ حکمران بدلے نہیں عوام نے سوچا نہیں ۔
جب عوام میں آفاقی سوچ کا فقدان ہوجاتاہے تو لوگوں کو شیطانی خیالات گھیرنے لگتے ہیں ۔ تبہی تو مہاجر خنجر بردار ہوءے ، پٹھان کمیونزم کے فریب میں آگئے، بلوچ مغرب زدہ ہوئےجبکہ سندھی اور سرائیکی قومیت اور عدم برداشت اور زمین کے دائرے تنگ کرنے کے مرض میں ایسے مبتلاہوئے کہ یہ سب کیڑے مل کر ہمارے آباؤ اجداد کے چھے لاکھ کے پاکیزہ خون سے حاصل کردہ اس مملکت کو دیمک کی طرح چاٹنے لگے ہیں۔
علماء تو ویسے بھی بیچارے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی تگ ودو میں ہیں ، حکمرانوں نے انہیں محروم تماشا رکھا ، میڈیا ان پر دن رات کیچڑ اچھالتا رہا ، مغرب زدہ مفکرین ان کی تنقیص شان کے مرض میں مبتلا رہے جبکہ عوام نماز ، جنازہ ، ختم اور تعویزات وفتاویٰ میں ان کی سرپرستی تلے آجاتے لیکن کاروبار ، شادی ، عیاشی ، تعلقات اور وضع قطع میں ان سے بیزار جبکہ امریکی گاؤ بانوں کے پکے مقلد ہوئے۔
اب آپ ہی سوچئے اس ملک میں کسی کی دال گلے تو کیسے اور کیوں کر گلے۔۔!!
کیونکہ ہر فرد اور ہر جماعت دوسرے پر حاوی ہونے ، اپنی طاقت جتانے اور حصول مراعات میں ایسے اقدامات کر گزرتی ہے کہ جنگ عظیم کے جرائم ان کے جرائم کے سامنے ہیچ نظر آنے لگتے ہیں۔
ہم پستی کے اس گہری کھائی میں کیسے آگرے ؟ کیا کسی نے اپنی زندگی کے چند لمحات کو اس نازک مسئلے پر سوچنے کیلئےوقف کرنے کوشش کی ہے ؟ یقینا نہیں ، کیونکہ سود خور حلال خوری کے بارے میں کیسے سوچ سکتاہے ! شباب وکباب کا رسا پاکدامنی کی لذت کیا جانے ! نیم برہنہ عورت لذت ِ حیا واستتار کیا جانے ! صلیب کا دیوانہ ہلال گنبد خضرا کی رنگینی کیسے ملاحظہ کرسکتاہے ، سازشی ، حاسد اور بے غیرت معاشرہ کبھی امن ، محبت اور ہم آہنگی کی لذت نہیں پاسکتا ۔
میرے پیارے عزیزاز جان قاری در حقیقت ہم راستہ بھول چکے ہیں ، کون سا رستہ بھلا۔۔۔؟
ہم قوت جذبۂ قربانی کا رستہ بھول کے باہمی تناحرانہ نفریں آمیز وادیوں میں کھو گئے ہیں۔
ہم مکین گنبد خضریٰ کے زریں اصولوں سے مرصع راستہ بھول کے یورپ کی بے آب وگیاہ گھاٹیوں میں بھٹک گئے ہیں۔
ہم نے ذاتی مفادات اور خوشامدی تہذیب اپنایا ہوا ہے ، جبکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے شجاعت بھرے فدائی جذبات کو فراموش کردیا ہے ۔
ہم نے آئین محمدی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو پس پشت ڈال دیا ، یوں ہمیں آئین سازی اور پالیسی سازی میں نصرانی دستر خوان کے بچے ہوئے ٹکڑے کھانے پڑے ۔
ہم نے قانون الہٰی کو بازیچۂ اطفال سمجھا، یوں تقدیر نے ہمارے ہر اتحاد کو بے ترتیبی اور ہر لائحہ عمل کو لا لائحہ اور ہر عمل کو لا عمل کی عملی تصویر میں بدل ڈالا۔
ہمیں یہ ملک ہمارے اسلاف نے اپنے خون سے اس کی سرحدی لکیریں کھینچ کر حوالے کیا اور ہم نے اپنے ہی بھائیوں اور بہنوں کو چند ٹکوں کے عوض اپنے دیرینہ دشمنوں کے آگے ڈال دیا اور یہ تک نہ سوچا کہ کل حوض کوثر پر حضور نبی کریم ﷺ کیا جواب دیں گے ۔
آج ہم حضور نبی کریم ﷺ کی شفاعت کے طلبگار اور یقین کی کیفیت میں سرشار خراماں خراماں جی رہے ہیں لیکن ہم نے کبھی یہ بھی سوچا کہ کل روز محشرجب ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور انکے ہمراہ ہماری سینکڑوں بیٹیاں جب حضور نبی کریم ﷺ کا دامن مبارک تھام کر کانپتے ہاتھوں اور بہتی آنکھوں سے وہ غیرت سوز واقعات اور حالات سامنے لائیں گی جن کے ذمہ دار ہمارے حکمران بدرجہ اول اور ہم عوام بدرجہ دوم ہیں تو آپ صرف تصور کیجئے کہ حضور نبی کریم ﷺ کی باحیا ء ، ٹھنڈک بخش ، رحم وکرم سے مرصع آنکھوں کا کیا منظر ہوگا۔ ان کے حسین از قمر وگلاب وعنبر و یاسمین چہرے پر کیسا رد عمل ظاہر ہوگا۔ !!!
ہم تو ان کی امت پروری ، عطف ورحم ، نرم دلی کے چرچے کرتے کرتے نہیں تھکتے اور نہ ہی شرم ہمیں آتی ہے لیکن کبھی تنہائی میں ان مناظر کو بھی مد نظر رکھیں کہ حضور نبی کریم ﷺ حوض پر مع اصحاب رضی اللہ عنہم رونق افروز ہونگے مسلمانوں کی جماعتیں فوج در فوج آتی جائینگی اور کاسہ دل ونظر کو فیضان ِ عطف وکرم وعطا وشفاعت و آب زمزم سے بھرتے جائیں گے یہاں تک اہم پاکستان کی باری آئیگی ہمارے آباو اجداد تشریف لائینگے ان کی زبانوں پر ایک ہی نعرہ ہوگا۔۔۔۔ کلنا فداک یا رسول اللہ ( ﷺ ) ۔۔۔۔۔ پاکستان کا مطلب کیا ۔۔ لا الہ الا اللہ ۔۔۔۔۔ان پر کرم ہوگا ، ان کے چہرے دیکھ کر حضور نبی کریم ﷺ کا چہرہ خوشی سے اور محبت سے کھل اٹھے گا اور اپنے مکی دور کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگی یاد آئیگی ، انہیں ہجرت کے سکت لمحات یاد آئینگے ، انہیں استقبال مدینہ یاد آئیگا ، پھر مدینہ منورہ کا دور حکمرانی یاد آئیگا ، یوں حضور نبی کریم ﷺ کو اپنے صحابہ کی مثیل اہل ہند کے مجاہدین حریت کے چہروں میں نظر آئیگی ، حضور نبی کریم ﷺ اپنے مبارک ہاتھوں سے کاسہ کرم بھر بھر کر انہیں عطا کرتے جائینگے ۔
ان مبارک ہستیوں کے بعد ہم اہل پاکستان کی باری آئیگی ، یوں ہم کالے چہرے لئے ، کالے کرتوت کے دفاتر ہاتھوں میں تھامے ، انتہائی شرمسار ، بے ناموس ، غیروں کے قدر دان اپنوں سے متنفر آگے آگے ہمارے نا اہل حکمران اور پیچھے پیچھے ہم ہونگے ، حضور نبی کریم ﷺ ہماری طرف یک نظر نہ دیکھیں گے ، یکسر نظر انداز کردینگے ، لیکن حضور کو رحم وشفقت کا ھالہ آگھیرے گا لیکن قوم کے مجاہدین ، قوم کی بیٹیاں اور بیٹے حضور نبی کریم کا دامن رحمت پکڑے فریاد کرینگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یارسول اللہ ( ﷺ ) ہم ۔۔۔۔!!!
اے اہل پاکستان ہم راستہ بھول چکے ہیں۔