اے تُرکِ غمزہ زن کہ مقابل نشستہہ : ترجمہ درکار ہے

جناب امتیاز علی تاج نے اپنے شہرہء آفاق ڈرامے انارکلی میں یہ غزل شریک کی ہے۔ اگر فارسی داں حضرات اس غزل کا سلیس اردو ترجمہ پیش کرسکیں تو ڈرامے کا لطف دوبالا ہوجائے۔
اے تُرکِ غمزہ زن کہ مقابِل نشستہ​
 

فاتح

لائبریرین
مکمل غزل تو نہیں۔۔۔ ہاں تین اشعار موجود ہیں:
اے ترک غمزہ زن کہ مقابل نشستہٖ
دردیدہ ام خلیدہ و در دل نشستہٖ

من خوں گرفتہ نیستم امروز ورنہ تو
خنجر بدست و تیغ حمائل نشستہٖ

خوباں شکستہ رنگ خجل ایستادہ اند
ہر جا تو آفتاب شمائل نشستہٖ​
 

محمد وارث

لائبریرین
کوشش کرتا ہوں خلیل صاحب گو فارسی دانی کا دعوی ہر گز نہیں۔ یہاں پر کچھ دوست ایران سے بھی موجود ہیں شاید وہ بہتر ترجمہ کر سکیں یا میرے ترجمے میں خامیوں کی نشاندہی فرما دیں

اے ترک غمزہ زن کہ مقابل نشستہٖ
دردیدہ ام خلیدہ و در دل نشستہٖ

اے ہمارے غمزہ زن محبوب کہ ہمارے مقابل بیٹھا ہے یعنی تمام ناز و ادا لیے، تُو ہماری آنکھوں میں گھُسا ہوا ہے اور اور ہمارے دل میں تشریف فرما ہے۔

من خوں گرفتہ نیستم امروز ورنہ تو
خنجر بدست و تیغ حمائل نشستہٖ

میں ہی آج مرنے والا نہیں ورنہ تُو تو خنجر ہاتھ میں لیے اور تیغ حمائل کیے بیٹھا ہوا ہے یعنی ہمارے قتل کو تیار بیٹھا ہوا ہے۔

خوباں شکستہ رنگ خجل ایستادہ اند
ہر جا تو آفتاب شمائل نشستہٖ

خوباں شکستہ رنگ لیے خجل یعنی پریشان کھڑے ہیں اور وہ اس لیے کہ ہر جگہ تُو آفتاب شمائل بیٹھا ہے۔ صنعتِ تضاد کا خوبصورت استعمال یعنی کھڑا اور بیٹھا۔
 
بہت خوبصورت اشعار اور اتنا ہی دلکش ترجمہ۔ مزہ آگیا جناب۔ عطش عطش

ایک اور شعر ملا ہے فیضی کی اسی غزل سے۔ اگر اسکا ترجمہ بھی کردیں تو دوآتشہ ہوجائے
آرام کردہء بنہاں خانہء دِلم​
خلقے دریں گماں کہ بہ محفِل نشستہِ​
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوبصورت اشعار اور اتنا ہی دلکش ترجمہ۔ مزہ آگیا جناب۔ عطش عطش

ایک اور شعر ملا ہے فیضی کی اسی غزل سے۔ اگر اسکا ترجمہ بھی کردیں تو دوآتشہ ہوجائے
آرام کردہء بنہاں خانہء دِلم​
خلقے دریں گماں کہ بہ محفِل نشستہِ​

شکریہ جناب۔

آپ نے بہت اچھا کیا شاعر کا نام بتا کے، فیضی کے کلیات میرے پاس کہیں پڑے ہیں، ڈھونڈ سکا تو غزل بھی ڈھونڈ لوں گا اور شاید کچھ اور اشعار کا ترجمہ کر سکوں:)

آرام کردہء بنہاں خانہء دِلم​
خلقے دریں گماں کہ بہ محفِل نشستہِ​
تُو تو میرے دل کے نہاں خانے میں براجمان ہے، اور خلق اس گمان میں ہے کہ تو محفل میں بیٹھا ہے۔​
واہ واہ واہ، ابھی تک کا بیت الغزل ہے یہ شعر :)
 

فاتح

لائبریرین
اے ترک غمزہ زن کہ مقابل نشستہٖ
دردیدہ ام خلیدہ و در دل نشستہٖ

آرام کردہٖ بنہاں خانۂ دلم
خلقے دریں کمان کہ محفل نشستہٖ

من خوں گرفتہ نیستم امروز ورنہ تو
خنجر بدست و تیغ حمائل نشستہٖ

کس را کجاست زہرہ کہ دزدیدہ پل ندت
بد مستی و بعر بدہ مایل نشستہٖ

خوباں شکستہ رنگ خجل ایستادہ اند
ہر جا تو آفتاب شمائل نشستہٖ

اے برق ریز خندہ بکشتی نشستگاں
معذور دار مت کہ بساحل نشستہٖ

فیضی توئی عجب کہ بایں کام آرزو
طے کردہ راہِ ہجر و بمنزل نشستہٖ​
 
شکریہ جناب۔

آپ نے بہت اچھا کیا شاعر کا نام بتا کے، فیضی کے کلیات میرے پاس کہیں پڑے ہیں، ڈھونڈ سکا تو غزل بھی ڈھونڈ لوں گا اور شاید کچھ اور اشعار کا ترجمہ کر سکوں:)

آرام کردہء بنہاں خانہء دِلم
خلقے دریں گماں کہ بہ محفِل نشستہِ
تُو تو میرے دل کے نہاں خانے میں براجمان ہے، اور خلق اس گمان میں ہے کہ تو محفل میں بیٹھا ہے۔
واہ واہ واہ، ابھی تک کا بیت الغزل ہے یہ شعر :)
وارث صاحب! استادِ من، توجہ فرمائیے۔

فاتح بھائی نے باقی ماندہ اشعار بھی پیش کردئیے ہیں۔ اب آپ سے درخواست ہے کہ ترجمہ مکمل فرمادیجیے
 

محمد وارث

لائبریرین
جی خلیل صاحب اپنی ناقص فہم کے مطابق مفہوم عرض کر دیتا ہوں۔ ایک شعر سمجھ میں نہیں آیا۔

جن اشعار کا ترجمہ ہو چکا انکے علاوہ

خوباں شکستہ رنگ خجل ایستادہ اند
ہر جا تو آفتاب شمائل نشستہٖ

سبھی خوباں ، محبوب، شکستہ رنگ کے ساتھ خجل کھڑے ہیں کیونکہ ہر جگہ تُو آفتاب شمائل بیٹھا ہے۔

اے برق ریز خندہ بکشتی نشستگاں
معذور دار مت کہ بساحل نشستہٖ

اے کہ تُو کشتی میں بیٹھے ہووں کی حالت پر ہنس کر برق ریزی کر رہا ہے۔ ہم تمھیں معذور سمجھتے ہیں کہ تُو ساحل پر بیٹھا ہے۔

فیضی توئی عجب کہ بایں کام آرزو
طے کردہ راہِ ہجر و بمنزل نشستہٖ

فیضی تو بھی عجب ہے کہ اپنے مقصودِ آرزو کے ساتھ، ہجر کا راستہ طے کر کے، منزل پر بیٹھا ہے۔
 

فہد اشرف

محفلین
اسی ڈرامے سے دو اور غزلیں ترجمہ طلب ہیں


غزل 1
ایں پیش خیل کج کلہاں از سپاہ کیست
دیں قبلہ کہ کج شدہ طرف کلاہ کیست

پایم بہ پیش از سر ایں کو نمی رود
یاراں خبر دہید کہ ایں جلوہ گاہ کیست

گرد سر تو گشتن و مردن گناہ من
دیدن ہلاک و رحم نہ کردن گناہ کیست

کف می کشید بزلف و نمی گویدش کسے
کاں زلف درہم از اثر دود آہ کیست

چوں بگذرد نظیری خونین کفن بحشر
خلقے فغاں کنند کہ ایں داد خواہ کیست


غزل 2
بملازمان سلطاں کہ رساند ایں دعا را
کہ بشکر پادشاہی ز نظر مرا گدارا

چہ قیامتست جاناں کہ بہ عاشقاں نمودی
رخ ہمچو ماہ تاباں دل ہمچو سنگ خارا

دل عالمے بسوزی چو عذار بر فروزی
تو از ایں چہ سود داری کہ نمی کنی مدارا

ہمہ شب دریں امیدم کہ نسیم صبح گاہی
بہ پیام آشنایان بنوازد آشنا را​
 
کس را کجاست زہرہ کہ دزدیدہ بیندت
بدمستی و بعربدہ مایل نشستہ ای

کسی کا (اتنا) جگر(زہرہ) کہاں کہ تجھے چپکے سے دیکھ لے کہ تو بدمست ہے اور لڑائی پر آمادہ بیٹھا ہوا ہے۔
 
اغلاط کا کافی احتمال موجود ہے۔
ایں پیش خیل کج کلہاں از سپاہ کیست
دیں قبلہ کہ کج شدہ طرف کلاہ کیست
وین قبلہ ای که کج شدہ طرفِ کلاہِ کیست
یہ ٹیڑھی ٹوپیوں والے لشکر کا سربراہ کون ہے اور یہ قبلہ کہ جو کج ہو گیا ہے کس کی کلاہ کی طرف ہے؟
پایم بہ پیش از سر ایں کو نمی رود
یاراں خبر دہید کہ ایں جلوہ گاہ کیست
میرا قدم از کوچے سے آگے نہیں جاتا، یار خبر لائیں کہ یہ کس کی جلوہ گاہ ہے۔
گرد سر تو گشتن و مردن گناہ من
دیدن ہلاک و رحم نہ کردن گناہ کیست
تیرے سر کے گرد گھومنا اور مرنا میرا گناہ ہے(مگر) ہلاک (ہوتا) دیکھنا اور رحم نہ کرنا کس کا گناہ ہے؟
کف می کشید بزلف و نمی گویدش کسے
کاں زلف درہم از اثر دود آہ کیست
کف می کشد بزلف و نمی گویدش کسی
یار اپنی زلف پر ہاتھ پھیر رہا ہے مگر کوئی اس سے یہ نہیں پوچھتا کہ اس کی زلفیں کس کی آہوں کے دھویں سے درہم ہیں۔
چوں بگذرد نظیری خونین کفن بحشر
خلقے فغاں کنند کہ ایں داد خواہ کیست
جب حشر میں نظیریِ خونیں کفن گزرے گا تو خلق فغاں کرے گی کہ یہ کس کا داد خواہ ہے۔
 
آخری تدوین:
بملازمان سلطاں کہ رساند ایں دعا را
کہ بشکر پادشاہی ز نظر مرا گدارا
سلطان کے ملازمان کو کون یہ دعا پہنچائے کہ وہ پادشاہی کا شکر گداگر کو نظروں سے دور نہ کر کے ادا کرے۔
چہ قیامتست جاناں کہ بہ عاشقاں نمودی
رخ ہمچو ماہ تاباں دل ہمچو سنگ خارا
اے جاناں کیا قیامت ہے کہ تو عاشقوں کو ماہِ تاباں سا رخ اور سنگِ خارا سا دل دکھاتا ہے۔
دل عالمے بسوزی چو عذار بر فروزی
تو از ایں چہ سود داری کہ نمی کنی مدارا
اگر تو رخ افروز ہو تو ایک عالم کے دل کو جلا دے۔ تو اس میں کیا فائدہ رکھتا ہے کہ مہربانی نہیں کرتا؟
ہمہ شب دریں امیدم کہ نسیم صبح گاہی
بہ پیام آشنایان بنوازد آشنا را
تمام شب میں اس امید میں (رہتا) ہوں کہ (جانے کب) نسیمِ صبح آشنا کو آشناؤں کا پیغام پہنچائے گی۔
 
آخری تدوین:
Top