اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو از نعیم صدیقی

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نعیم صدیقی صاحب کی ایک طویل نظم پیشِ خدمت ہے:​
"۔۔۔اگر تم ساتھ نہ دو"
رفیقۂ حیات سے
اے جاں اگر تم ساتھ نہ دو​
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!​
تم آؤ فرض بلاتا ہے​
دنیا میں تغیر آتا ہے​
ایک طوفان جوش دکھاتا ہے​
اک فتنہ شور مچاتا ہے​
ہم لوگ ابھی آزاد نہیں​
ذہنوں کی غلامی باقی ہے​
تقدیر کی شفقت سے حاصل؟​
تدبیر کی خامی باقی ہے​
سینوں کے حرم سونے ہیں ابھی​
امیدوں سے آباد نہیں​
چہروں کی چمک اک دھوکا ہے​
کوئی بھی جوانی شاد نہیں​
چھوڑی ہیں جڑیں زنجیروں نے​
ان میں سے کسی کو نوچیں تو​
اعصاب تڑخنے لگتے ہیں​
آزادی سے کچھ سوچیں تو​
اندام چٹخنے لگتے ہیں​
ان زنجیروں کو کیا کیجیے!​
ہے ان سے گہرا پیار ہمیں​
ان زنجیروں کے بجنے کی​
لگتی ہے بھلی جھنکار ہمیں​
مغرب کے اصولوں کے بندھن​
افسوس نہ اب تک ٹوٹ سکے​
ہم کہنہ مشق بھکاری ہیں!​
مشکل ہے کہ عادت چھوٹ سکے​
کب بویا اپنا بیج کوئی​
جو نم پائے اور پھوٹ سکے​
تقلید کے ایسے خوگر ہیں​
آزاد روی سے ڈرتے ہیں​
'معشوق' جو ہم سے روٹھ گیا​
تصویر پہ اس کی مرتے ہیں​
اغیار لکیریں کھینچ گیا​
ہم لوگ فقیری کرتے ہیں​
محنت سے کمائی کی نہ کبھی​
خیرات سے جھولی بھرتے ہیں​
گو دورِ غلامی بیت گیا​
ملت کی خودی کو پیس گیا​
ہم جیت کے بازی ہار گئے​
اور دشمن ہر کر جیت گیا​
اس حال میں گو مایوس نہیں​
بڑھنے کی ہمت کرتا ہوں​
پر تم سے بھید چھپاؤں کیا​
دل بیٹھ نہ جائے ڈرتا ہوں​
اس وقت اگر تم ساتھ نہ دو​
تو تنہا ہم سے کیا ہو گا!​
جو کام ہمارے ذمے تھا​
وہ کام ابھی تو باقی ہے​
تمہید بہت ہی خوب سہی​
اتمام ابھی تو باقی ہے!​
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو​
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا​
انسان بناؤ تم جیسے​
تہذیب بھی ویسی بنتی ہے​
تہذیب ہے عورت کے بس میں​
وہ کیسی نسلیں جنتی ہے​
وہ کیسے مرد بناتی ہے​
وہ کیا اخلاق سکھاتی ہے​
کیا جذبے اکر گھول کے وہ​
بچے کو دودھ پلاتی ہے​
کس کیفیت کی مستی میں​
وہ میٹھی لوری گاتی ہے​
گر رنج ہو تو صاف کہوں​
یہ تم ہی تو تھیں! کیا بھول گئیں!​
خود تم نے نظامِ باطل کو​
گودی میں سپاہی پال دئیے​
بیداد کی کل یاں کیسے چلی؟​
تم نے ہی تو پرزے ڈھال دئیے​
ابلیس نے مانگے کارندے​
تو تم نے اپنے لال دئیے​
تم نے تو کلیجوں کے ٹکڑے​
منڈی میں لا کر ڈال دئیے​
تم سے جو تقاضے دین کے تھے​
افسوس کہ تم نے ٹال دئیے​
ہے مرد کی ذمے جتنی خطا​
اتنی ہی تو ذمہ دار ہو تم​
اب میں کفارہ دیتا ہوں​
کیا ساتھ مرے تیار ہو تم؟​
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو​
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!​
٭٭٭​
لڑنا ہے درونِ در تم کو​
بیرونِ در کے فتنوں سے​
میں اپنی جان لڑاؤں گا​
قلعے کی تم رکھوالی ہو​
قلعے سے باہر دشمن پر​
دیکھو گی، میں چھا جاؤں گا​
تم نسوانیت کو بدلو​
احساسِ فرض دلا کر میں​
مردوں کو مرد بناؤں گا​
تم اچھے پرزے ڈھال کے دو​
میں نظم تمدن کی کل کو​
پھر دین کے ڈھب پر لاؤں گا​
عورت کا تغافل تھا جس نے​
ہٹلر، چرچل اور اسٹالن​
اس دنیا میں بن جانے دئیے​
عیشوں میں یہ ظالم مست رہی​
جنگاہ میں خنجر جذبوں کے​
سو بار یہاں تن جانے دئیے​
ہاتھوں میں لٹیروں کے یونہی​
تہذیب کے مخزن جانے دئیے​
عورت نے خزاں کے قبضے میں​
اخلاق کے گلشن جانے دئیے​
ہر جنگ کے پردے کے پیچھے​
عورت کی خطائیں رقصاں ہیں​
عورت کے تغافل کے مارے​
یہ غیر مکمل انساں ہیں​
یہ ہر خواہش کے بندے ہیں​
اور خواہش ہی میں غلطاں ہیں​
افکار پریشان ہیں ان کے​
افکار، کہ مار پیچاں ہیں؟​
یہ دانش مند درندے ہیں!​
افسوس کے ان کے ہاتھوں سے​
کتنے ہی گھرانے ویراں ہیں​
مستقبل کو ان فتنوں سے​
عورت ہی بچانے والی ہے​
قوموں کے مٹانے والی ہے​
قوموں کے بچانے والی ہے​
جس نقشے پر بھی یہ چاہے​
نسلوں کو اٹھانے والی ہے​
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو​
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!​
زنداں جو فرنگی حکمت کا​
دوصدیوں میں تعمیر ہوا​
اب اس پر سنگیں پہرے ہیں​
یہ ایک اٹل تقدیر ہوا​
ہم اس کے نگہباں ہیں خود ہی​
ہم آپ ہیں پہرہ دار اس کے​
ہم اس کے پجاری ہیں اب تک​
گو جا بھی چکے معمار اس کے​
اٹھ جان! کہ اپنے آپ سے ہم​
اک سخت بغاوت کر دیکھیں​
خود آپ ہی اپنے جذبوں پر​
اک سخت شقاوت کر دیکھیں​
افرنگ نے جانے سے پہلے​
یاں انڈے بچے دے ہی لئے​
باطل نے وراثت بھی چھوڑی​
اور ساتھ ہی وارث چھوڑ دئیے​
باہر کے فرنگی بھاگ چکے​
اب گھر کے "فرنگی" باقی ہیں​
قرآن کی مے تھے جو لوگ امیں​
وہ کفر کی مے کے ساقی ہیں​
جس دین پہ ایماں ہے​
اس دین کی یہ تذلیل کریں​
کیا ہم یہ سہہ بھی سکتے ہیں؟​
قرآں کے حقائق کو ظالم​
تاویلوں سے تبدیل کریں​
کیا ہم چپ رہ بھی سکتے ہیں​
اب تم کو، مجھ کو، دونوں کو​
ان باطل کے معماروں کی​
تعمیروں سے ٹکرانا ہے​
اب تم کو، مجھ کو، دونوں کو​
طوفانوں سے لڑ جانا ہے​
پر تم سے اگر یہ ہو نہ سکے​
تو جاؤ الگ بیٹھ رہو​
کچھ مجھ پر کرم فرماؤ نہیں​
آوارگی و عریانی سے​
للہ مجھے بہکاؤ نہیں​
خواہش کے کھلونوں سے جانم!​
بچوں کی طرح بہلاؤ نہیں​
یہ سرخی، غازہ، کاجل کیا!​
یہ چوڑی، بالی، چھاگل کیا!​
یہ جادو کے سب چھل بل کیا!​
آخر یہ ذہنی ہل چل کیا!​
کرنوں کی تراوش سے حاصل؟​
جلوؤں کی نمائش سے حاصل؟​
اس آگ کی بارش سے حاصل؟​
جس سیل میں تم بہتی ہو، بہو​
پر مجھ کو بہا لے جاؤ نہیں​
میں حق کا سپاہی ہوں مجھ پر​
جادو کی طرح سے چھاؤ نہیں​
سینے کو مرے برماؤ نہی​
تڑپاؤ نہیں، تڑپاؤ نہیں​
جو چاہو کرو آزاد ہو تم!​
پر فرض سے اپنے میں آزاد نہیں​
تم عیاشی کو چاہو تو​
فن اس کا مجھ کو یاد نہیں​
میں تم کو کروں مجبور تو کیوں؟​
جبار نہیں، شداد نہیں​
پر تم جو میرا ساتھ نہ دو​
کیا یہ مجھ پر بے داد نہیں​
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو​
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!​
٭٭٭​
میں تنہا بھی بڑھ سکتا ہوں​
اور شاید بڑھتا جاؤں گا​
میں حق کی خونی راہوں میں​
جو چوٹ بھی آئی کھاؤں گا​
اللہ سے یہ امید بھی ہے​
اک دن منزل کو پاؤں گا​
پر کھلتی ہے تنہائی تو!​
تڑپاتی ہے یکتائی تو!​
للہ! تم اس کا پاس کرو​
حساس ہو تم! احساس کرو​
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو​
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!​
تن کا تو ساتھ نباہا ہے​
کیا من کا ساتھ نباہو گی؟​
مجھ کو تم نے چاہا ہے​
پر کیا حق کو بھی چاہو گی؟​
اب آگے ایک دوراہا ہے​
اب راہ تمہاری کیا ہو گی؟​
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو!​
پھر مجھ کو خدا ہی کافی ہے!​
گر تم سے رفاقت ہو نہ سکے​
تو جذبۂ راہی کافی ہے!​
تم لڑنے سے کتراؤ تو​
ایمانِ سپاہی کافی ہے!​
پھر بھی میں تم سے کہتا ہوں​
تم ساتھ رہو تو بہتر ہے​
پیچھے نہ ہٹو تو بہتر ہے!​
آگے کو چلو تو بہتر ہے!​
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو​
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!​
٭٭٭​
احساسِ خودی کی کمزوری!​
یہ عذر کے تم اک عورت ہو​
تم ہمت ہو، تم قوت ہو!​
تم طاقت ہو، تم جرات ہو!​
تم اک پُر جوش جسارت ہو​
تم اک با رعب شجاعت ہو​
تم اک رنگین قیامت ہو​
تم عزت، عفت، عصمت ہو​
تم عظمت، شوکت، رفعت ہو​
تم رحمت، راحت، شفقت ہو​
تم نصف انسانیت ہو!​
کیا عذر تراشو گی آخر؟​
جب حشر میں پوچھا جائے گا​
کیا اپنے قویٰ سے کام لیا؟​
جب کفر سے دیں کی ٹکر تھی​
تو تم نے کس کا ساتھ دیا؟​
اس وقت کہو گی کیا بولو!​
ہر عذر کو کانٹے پر تولو!​
آنکھیں تو اٹھاؤ، لب کھولو!​
اے جان اگر تم ساتھ نہ دو​
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا؟​
(نعیم صدیقی)
 
Top