اے حمید کی یادگار تصاویر-تعزیتی کالمز کے ہمراہ

تلمیذ

لائبریرین
بڑی نوازش ہے، جناب۔
یہ بھی مرحوم کے چاہنے والوں کے لیے ایک سرمایہ ہے۔ اللہ ان کی روح کو آخرت میں چین و آرام سے رکھے۔
اور خراج تحسین ہے آپ کے لیے، جو اردو ادب کے مشاہیر کا نام زندہ رکھنے لیے یہ بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جزاک اللہ بخیر۔
 

نایاب

لائبریرین
کھا گئی زمین آسمان کیسے کیسے ۔۔۔۔۔
حق مغفرت فرمائے آمین
بلاشبہ اپنی ذات میں اک جہان تھے مرحوم اے حمید صاحب
بہت شکریہ بہت دعائیں محترم راشد بھائی
 

قیصرانی

لائبریرین
زبردست۔ میں نے انہیں ایک بار دیکھا تھا کہ وہ اسلام آباد میں ایک عمارت کے سامنے گراسی پلاٹ میں گھنٹوں سر جھکائے چلتے رہے تھے، چھوٹا سا پلاٹ تھا، بس سوچوں میں منہمک آ رہے تھے اور جا رہے تھے
 

راشد اشرف

محفلین
پسندیدگی کا شکریہ
پیش کردہ پی ڈی ایف فائل کے آخر میں لاہور کے اسلم لودھی صاحب کا ایک طویل غیر مطبوعہ مضمون بھی شامل کیا گیا ہے جسے انہوں نے گزشتہ کل راقم کو ارسال کیا تھا۔ یہ مضمون انہوں نے نہایت محنت اور محبت سے لکھا ہے۔ امید ہے کہ دوستوں کو پسند آئے گا۔
 

راشد اشرف

محفلین
جزاک اللہ
بہت نادر اور نایاب تصاویر
مقدور ہوتو خاک سے پوچھوں اے لیئم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے

یہ تمام تصاویر ایک ایسے سالخوردہ البم میں لگائی گئی تھیں جس کی حالت یہ تھی کہ اسکیننگ کے بعد تمام صفحے بکھر بکھر گئے۔ اطمینان یہ ہے کہ تصاویر محفوظ ہوگئیں۔
ایک تصویر ایسی ہے جس میں وہ ایک پرانی عمارت کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر کچھ لکھ رہے ہیں، معلوم ہوا کہ یہ اس وقت کی تصویر ہے جن دنوں وہ اپنا انتہائی دلچسپ ناول ڈربے لکھ رہے تھے۔
 
یہ تمام تصاویر ایک ایسے سالخوردہ البم میں لگائی گئی تھیں جس کی حالت یہ تھی کہ اسکیننگ کے بعد تمام صفحے بکھر بکھر گئے۔ اطمینان یہ ہے کہ تصاویر محفوظ ہوگئیں۔
ایک تصویر ایسی ہے جس میں وہ ایک پرانی عمارت کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر کچھ لکھ رہے ہیں، معلوم ہوا کہ یہ اس وقت کی تصویر ہے جن دنوں وہ اپنا انتہائی دلچسپ ناول ڈربے لکھ رہے تھے۔
افسوس اس بات کاہے کہ ہم اپنے مشاہیر کی قدر ان کی وفات کے بعد کرتے ہیں
آپ نے بہت قابل قدر کام کیا اللہ آپکو جزائے خیر عطا فرمائے آمین
 

راشد اشرف

محفلین
افسوس اس بات کاہے کہ ہم اپنے مشاہیر کی قدر ان کی وفات کے بعد کرتے ہیں
آپ نے بہت قابل قدر کام کیا اللہ آپکو جزائے خیر عطا فرمائے آمین

جزاک اللہ جناب والا

اے حمید ایک نیک طینت اور شریف النفس انسان تھے۔ ساری زندگی لکھا اور لکھنے کا حق ادا کیا۔ اس زمانے کے بچے آج ادھیڑ عمر کے ہوگئے ہیں جنہوں نے ان کی کتابیں نہایت انہماک سے پڑھی تھیں۔ وہ بچے آج بھی ان کے انداز تحریر کو نہیں بھول پائے ہیں۔ اندازہ ہوتا ہے کہ اے حمید لکھتے وقت خود بھی محظوظ ہوا کرتے تھے، وہ ان ادیبوں میں سے تھے جن کو اپنی تحریروں سے خود عشق ہوتا ہے اور جو ماضی کے واقعات پر پڑے پردے اٹھا کر پڑھنے والوں کو ایک روشن تصویر دکھاتے چلے جاتے ہیں۔
میں ان کی مغفرت کی دعا روزانہ کرتا ہوں
 
Top