زیک
مسافر
اے خدا تو ہمیں آئس کریم والے سے لے
بادبان کھلنے لگے پھر
کشتیاں سفر پر روانہ ہوئیں
دروازوں پہ دستک ہوئی
دھند میں بدلتے موسموں کی
خوف جاگا اندھے سفر کا
دیواروں پہ تصویریں سجائی گئیں
انکی جو کل تک
درمیان تھے ہمارے مگر اب
فقط نقش دیوار ہیں وہ
مگر اے خدا بندگی
فقط خوف کا سلسلہ تو نہیں ہے
لوٹ آ کہ ہمارے دلوں میں
وسوسے سر اٹھانے لگے ہیں
دیکھ ہمارے صحن میں
بچپن کے وہ دن اب تک کھڑے ہیں
کہ جب تو ہمارے درمیان
خوشبوؤں کی طرح
موجود رہتا تھا ہر وقت
لوٹ آ کہ جنگلوں کی دھندلی شام
منتظر ہے اب تک تیری آہٹوں کی
آ کہ شاخوں سے اترتی آس کی روشن لکیر
برسوں رستہ تکتی رہی ہے تیرا
آ کہ ہوا کی سرگوشیوں میں اب بھی
تیری واپسی کی خبر ہے
یاد کر وہ دن کہ جب تو ہمارا
ہمسفر برسوں رہا تھا
خوشنما پرندوں کے پروں پہ
نام لکھ کر تیرا ہم
اپنے معصوم کھیلوں میں تیری موجودگی کی
شہادت دیتے رہے تھے
تتلیوں کے رنگوں میں تیری مہک تھی
خواب تھے تعبیر جن کی
جگنووں کی روشنی میں ڈھونڈتے رہتے تھے ہم
ہمارے درمیان تو رات بھی حائل نہیں تھی
مہربان تھی جنگلوں کی شام ہم پہ
ساتھ رہتی تھی ہمارے
صبح کی پہلی کرن کی واپسی تک
لیکن پھر جنگلوں کی شام پر
اجنبی چہروں کی پرچھائیاں پڑنے لگیں
کون تھے یہ لوگ ہم سے کہہ رہے تھے جو خدا
تتلیوں کے رنگ تیرے ہاتھ پہ سجتے نہیں
جگنووں کی روشنی سے بہتر ہے اندھیرے کا سفر
آؤ خدا کو لے چلیں شہر کے بچوں سے دور
ہم نے ان کو آج تک دیکھا نہیں ہے، اے خدا
بارشوں میں بھیگتے، چاندنی میں
خواب کی آہٹیں سنتے ہوئے
وہ کہ جن کو آج تک آیا نہیں،
خوشبوؤں کی زبان میں لکھے
صحیفے پڑھ لینے کا ہنر
وہ کہ جن کی آنکھوں نے خود سپردگی کا معجزہ
آج تک دیکھا نہیں
یہ نہ آشانہ لذت ہجر و وصال نامہ بر
کیسے ہوا اس خدا کے حکم سے جس کی
ہجر کی راتوں میں بھی وصل کا ذائقہ رکھا گیا
ہم نے دیکھا ہے تجھے
بارشوں میں خوشبوؤں کا رنگ جگاتے، اے خدا
ہم نے دیکھا ہے
پہاڑوں سے اترتی شام کو آسمان سے گلے ملتے ہوئے
ہم نے دیکھا ہے
رات کے پچھلے پہر کا وصل
صبح کی پہلی کرن سے اے خدا،
اے روشنیوں، رنگوں، امنگوں کے خدا لوٹ آ
ٹھہر گئی ہے جنگلوں کی شام دیکھ
انہی پگڈنڈیوں پہ تیرے ساتھ ہم جہاں
خوشنما پرندوں کے پر چنتے رہے تھے
آ کہ ہم تتلیوں کے رنگ آنکھوں میں سجائے
جگنووں کی روشنی میں پیچھا کریں پھر رات کا
پھر شام کو ساحلوں پر بھیگتے لوگوں میں بیٹھیں
اور اے خدا تو ہیمیں آئس کریم والے سے
لے دے آئس کریم آ کر
اعجاز کے بلاگ پر انور اقبال کی یہ نظم رومن اردو میں ہے۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اسے اردو میں لکھا جائے۔ میرا خیال ہے کہ میں نے اس میں کئی غلطیاں کی ہیں۔ امید ہے آپ انہیں درست کرنے میں میری مدد کریں گے۔
http://jazz.ipadder.com/?view_id=11315
بادبان کھلنے لگے پھر
کشتیاں سفر پر روانہ ہوئیں
دروازوں پہ دستک ہوئی
دھند میں بدلتے موسموں کی
خوف جاگا اندھے سفر کا
دیواروں پہ تصویریں سجائی گئیں
انکی جو کل تک
درمیان تھے ہمارے مگر اب
فقط نقش دیوار ہیں وہ
مگر اے خدا بندگی
فقط خوف کا سلسلہ تو نہیں ہے
لوٹ آ کہ ہمارے دلوں میں
وسوسے سر اٹھانے لگے ہیں
دیکھ ہمارے صحن میں
بچپن کے وہ دن اب تک کھڑے ہیں
کہ جب تو ہمارے درمیان
خوشبوؤں کی طرح
موجود رہتا تھا ہر وقت
لوٹ آ کہ جنگلوں کی دھندلی شام
منتظر ہے اب تک تیری آہٹوں کی
آ کہ شاخوں سے اترتی آس کی روشن لکیر
برسوں رستہ تکتی رہی ہے تیرا
آ کہ ہوا کی سرگوشیوں میں اب بھی
تیری واپسی کی خبر ہے
یاد کر وہ دن کہ جب تو ہمارا
ہمسفر برسوں رہا تھا
خوشنما پرندوں کے پروں پہ
نام لکھ کر تیرا ہم
اپنے معصوم کھیلوں میں تیری موجودگی کی
شہادت دیتے رہے تھے
تتلیوں کے رنگوں میں تیری مہک تھی
خواب تھے تعبیر جن کی
جگنووں کی روشنی میں ڈھونڈتے رہتے تھے ہم
ہمارے درمیان تو رات بھی حائل نہیں تھی
مہربان تھی جنگلوں کی شام ہم پہ
ساتھ رہتی تھی ہمارے
صبح کی پہلی کرن کی واپسی تک
لیکن پھر جنگلوں کی شام پر
اجنبی چہروں کی پرچھائیاں پڑنے لگیں
کون تھے یہ لوگ ہم سے کہہ رہے تھے جو خدا
تتلیوں کے رنگ تیرے ہاتھ پہ سجتے نہیں
جگنووں کی روشنی سے بہتر ہے اندھیرے کا سفر
آؤ خدا کو لے چلیں شہر کے بچوں سے دور
ہم نے ان کو آج تک دیکھا نہیں ہے، اے خدا
بارشوں میں بھیگتے، چاندنی میں
خواب کی آہٹیں سنتے ہوئے
وہ کہ جن کو آج تک آیا نہیں،
خوشبوؤں کی زبان میں لکھے
صحیفے پڑھ لینے کا ہنر
وہ کہ جن کی آنکھوں نے خود سپردگی کا معجزہ
آج تک دیکھا نہیں
یہ نہ آشانہ لذت ہجر و وصال نامہ بر
کیسے ہوا اس خدا کے حکم سے جس کی
ہجر کی راتوں میں بھی وصل کا ذائقہ رکھا گیا
ہم نے دیکھا ہے تجھے
بارشوں میں خوشبوؤں کا رنگ جگاتے، اے خدا
ہم نے دیکھا ہے
پہاڑوں سے اترتی شام کو آسمان سے گلے ملتے ہوئے
ہم نے دیکھا ہے
رات کے پچھلے پہر کا وصل
صبح کی پہلی کرن سے اے خدا،
اے روشنیوں، رنگوں، امنگوں کے خدا لوٹ آ
ٹھہر گئی ہے جنگلوں کی شام دیکھ
انہی پگڈنڈیوں پہ تیرے ساتھ ہم جہاں
خوشنما پرندوں کے پر چنتے رہے تھے
آ کہ ہم تتلیوں کے رنگ آنکھوں میں سجائے
جگنووں کی روشنی میں پیچھا کریں پھر رات کا
پھر شام کو ساحلوں پر بھیگتے لوگوں میں بیٹھیں
اور اے خدا تو ہیمیں آئس کریم والے سے
لے دے آئس کریم آ کر
اعجاز کے بلاگ پر انور اقبال کی یہ نظم رومن اردو میں ہے۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اسے اردو میں لکھا جائے۔ میرا خیال ہے کہ میں نے اس میں کئی غلطیاں کی ہیں۔ امید ہے آپ انہیں درست کرنے میں میری مدد کریں گے۔
http://jazz.ipadder.com/?view_id=11315