مدیحہ گیلانی
محفلین
ابھی مقدس نے فراز کی ایک انتہائی خوبصورت غزل ارسال کی تو ہمیں بھی مہمیز ہوئی کہ کچھ انتخاب اس عہد کے خوبصورت شاعر کا ارسال کیا جائے۔
اے خدا! جو بھی مجھے پندِ شکیبائی دے
اُس کی آنکھوں کو مرے زخم کی گہرائی دے
تیرے لوگوں سے گلہ ہے مرے آئینوں کو
ان کو پتھر نہیں دیتا ہے تو بینائی دے
جس کے ایما پہ کیا ترکِ تعلق سب سے
اب وہی شخص مجھے طعنۂ تنہائی دے
یہ دہن زخم کی صورت ہے مرے چہرے پر
یا مرے زخم کو بھر، یا مجھے گویائی دے
اتنا بے صرفہ نہ جائے مرے گھر کا جلنا
چشمِ گریاں نہ سہی چشمِ تماشائی دے
جن کو پیراہنِ توقیر و شرف بخشا ہے
وہ برہنہ ہیں انھیں خلعتِ رسوائی دے
کیا خبر تجھ کو کہ کس وضع کا بسمل ہے فرازؔ
وہ تو قاتل کو بھی الزامِ مسیحائی دے
احمد فرازؔ کے مجموعۂ کلام "جاناں جاناں" سے انتخاب