قیصرانی
لائبریرین
میرے بچپن کی بات ہے کہ ہمارے گھر میں ملازم بچے رکھنے کا رواج شروع ہوا۔ بات یہیں تک رہتی تو بہت بہتر ہوتا۔ لیکن ہمارے ہاں یہ رواج بھی چل نکلا کہ اس ملازم کو ملازم تو درکنار اسے انسان کا درجہ بھی دینا گوارا نہ ہوا۔ عام طور پر یہ ملازم بچے جن کی عمر چھ سے بارہ سال تک ہوتی تھی، اپنے گھر والوں سے دور، حقیقت میں کالے پانی دور آتے تھے۔ ان میں بچیاں بھی ہوتی تھیں اور بچے بھی۔ ان کے والدین سے وعدہ ہوتا کہ بچوں کو تعلیم، کپڑے اور اچھا کھانا دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ماہانہ تنخواہ بھی ہوگی۔ بدلے میں ان بچوں کو گھر کے چھوٹے موٹے کام کرنے ہوں گے۔
ڈیل یہاں تک تو بہت معقول تھی۔ خرابی یہ نکلی کہ ہماری رشتہ دار، جو اپنے مزارعوں سے یہ ڈیل کر کے آتی تھیں، وہ ہمیں الٹا سبق پڑھاتیں کہ انہیں تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں۔ روٹی گھر انہیں ملتی نہیں تھی، یہاں اگر باسی بھی مل جائے تو ان کے لئے غنیمت ہے۔ سالن اگر ساتھ ہوا تو یوں سمجھئے کہ من و سلوی مل گیا۔ جب سال دو سال بعد یہ بچے گھر جاتے تو ان کی آدھی تنخواہ رکھ لی جاتی کہ بچے واپس آئے تو یہ تنخواہ ملے گی۔ ورنہ نہیں۔ سال یا دو سال سے قبل تو ان بچوں کے جانے کا سوال ہی نہیں ہوتا تھا۔ شاید عرب کفیلوں نے ہم سے یہ رویہ سیکھا ہے کہ پاس پورٹ رکھوا لیتے ہیں
جیسا کہ عام انسان کی عادت ہے، اچھی بات سیکھتے سیکھتے برسوں بیت جاتے ہیں، بری بات بندہ فوراً چند ہی منٹوں میں اپنا لیتا ہے۔ ہمارے گھر میں یہ رواج شروع ہوا کہ یہ محض انسان کی شکل کے جانور یا غلام ہیں۔ ان کے کوئی حقوق نہیں اور نہ ہی ان کو اپنے برابر تو کجا انسان یا انسان کا بچہ بھی نہیں سمجھنا چاہئے۔ ورنہ یہ "سر چڑھ" جائیں گے۔ اب ان کی ڈیوٹی کیا ہوتی ہے، ذرا نوٹ کیجئے:
صبح جب امی نے جاگنا تو انہیں بھی جگا دینا۔ اس کے بعد وہ ناشتہ تیار کرنے میں امی کی مدد کرتے، فرج سے کچن تک چیزیں لانا، لے جانا، ہم بہن بھائیوں کے بستے تیار کرنا، ہمیں ناشتہ لا کر دینا، خالی برتن لے جانا (یہ سوچنا تو محض حماقت ہی ہوگی کہ ہمیں جو ناشتہ ملتا، وہ ان بے چاروں کے لئے کتنا مرغوب ہوتا، لیکن وہ اسے دیکھ سکتے، چھو نہ سکتے)، پھر انہیں ناشتہ دیا جاتا جو بالعموم پچھلی رات کی بچی ہوئی روٹی ہوتی، جسے توے پر سینک کر ہلکا سا گھی لگا کر رات کے سالن کے ساتھ، اگر سالن نہ ہوتا تو پانی یا چائے کے ساتھ دی جاتی۔ اس کے بعد گھر کی صفائی شروع ہوتی۔ سارے گھر کے فرش پر جھاڑو پھیرنا، پھر پوچا لگانا، پھر سبزی وغیرہ لانا (جو کئی کلومیٹر دور سے لانی ہوتی)، پھر اگر موسم گرما ہوتا تو دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں جا کر تندور سے روٹیاں لگوا لانا بھی انہی بچوں کے ذمے ہوتا۔ بعض اوقات یہ بچے دو بہن بھائی، دو بھائی یا دو بہنیں ہوتے۔ پھر سب گھر والے الگ اور یہ بچے الگ بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ پھر قیلولہ ہوتا جو یہ بچے بھی انجوائے کرتے۔ شام کو یہی روٹین ہوتی، بس فرق یہ تھا کہ شام کو تندور پر روٹیاں لگوانے کا رواج نہیں تھا۔ رات کو جب سب سوتے تو ان بچوں کو بھی سونے کی اجازت ملتی۔
یہاں تک کی روٹین تو شاید کئی گھروں کی عام داستان ہو۔ اصل اذیت ناک یاد یہ ہے کہ امی کی عادت تھی کہ ان بچوں کے ساتھ کبھی بہت سختی اور کبھی بہت نرمی کرتیں۔ اس معاملے میں وہ اپنے بچوں اور ان بچوں میں ذرا فرق نہ کرتیں۔ یعنی بات بے بات جس طرح ہماری دھنائی ہوتی، یہ بچے بھی اسی شفقت سے پٹتے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا کہ امی کا جی نہیں چاہ رہا یا بہت سخت مار پڑوانی ہو تو امی ہم بہن بھائیوں سے ان بچوں کو پٹواتی تھیں۔ ہم بہن بھائی چونکہ خود بھی اکثر پٹتے تھے، ہمیں علم تھا کہ کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ ہم بہن بھائی ان بچوں کو امی سے نظر بچا کر کبھی کبھی انسان سمجھ لیا کرتے۔ کبھی انہیں کوئی ٹافی دے دی، کبھی چیونگ گم اور کبھی کچھ اور۔ ہماری عمریں ایک جتنی ہی ہوتی تھیں۔ ہم کھیلتے بھی ایک ساتھ ہی تھے۔ اس لئے امی جب بھی ہمیں کہتیں کہ اس بچے یا بچی کو مارو تو ہم ہمیشہ انہیں لے کر دور کونے میں یا دوسرے کمرے میں چلے جاتے۔ ہم بہن بھائیوں اور ان بچوں کے درمیان ایک ان کہا معاہدہ ہوتا تھا کہ ہم صرف یہ شو کریں گے کہ ہم مار رہے ہیں اور وہ شو کریں گے کہ وہ مار کھا رہے ہیں۔ امی اتنی دور ہوتیں کہ انہیں مارنے کی آواز تو نہ سنائی دیتی، لیکن بچوں کے شور کو سن کر مطمئن ہو جایا کرتی تھیں کہ خوب پٹائی ہو رہی ہے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ امی نے مجھے خاص تاکید کی کہ اس بچے کو اچھی طرح مارو کہ اس نے برتن دھونے سے انکار کیا ہے۔ شومئ قسمت، امی کا موڈ بہت خراب تھا۔ تاکید ہوئی کہ میرے سامنے مارو۔ میں نے پس و پیش کیا تو مجھے مار پڑنے لگی۔ ظاہر ہے کہ میں کوئی فرشتہ نہیں، اپنی جان سب کو پیاری ہوتی ہے، اگر کسی دوسرے کو مار پڑنی ہے تو مجھے کیا، میری تو جان چھوٹ جائے گی۔ اس دن پہلی اور آخری بار میں نے ملازم بچے پر ہاتھ اٹھایا۔ دو تھپڑ مارے۔ یقین کیجئے کہ وہ بچہ جو ڈنڈے سے مار کھا کر بھی کبھی سر نہ اٹھاتا، تھپڑ لگتے ہی اس نے سر اٹھایا اور سیدھا میری آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ بچہ جیسے پوچھ رہا ہو، اے خدا، کیا تو واقعی وجود رکھتا ہے؟ اس وقت امی کا ڈنڈا میری کمر پر پڑا کہ لات مارو۔ اس وقت میں نے پوری ہمت جمع کی اور لات ماری۔ اس رات نہ امی سو سکیں اور نہ میں۔ میرے پیر کی تین ہڈیاں فریکچر ہوئی تھیں کہ وہ لات میں نے دیوار پر ماری تھی۔مجھے درد سے اور امی کو پتہ نہیں ہمدردی، ممتا یا شاید غصے کی وجہ سے نیند نہیں آئی ہوگی؟
پس نوشت: نیرنگ خیال بھائی، جب میں نے ماں والے دھاگے پر وکٹم والی بات کی تھی، تو اس کے پیچھے یہ اور اسی جیسے ان گنت واقعات ہیں
ڈیل یہاں تک تو بہت معقول تھی۔ خرابی یہ نکلی کہ ہماری رشتہ دار، جو اپنے مزارعوں سے یہ ڈیل کر کے آتی تھیں، وہ ہمیں الٹا سبق پڑھاتیں کہ انہیں تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں۔ روٹی گھر انہیں ملتی نہیں تھی، یہاں اگر باسی بھی مل جائے تو ان کے لئے غنیمت ہے۔ سالن اگر ساتھ ہوا تو یوں سمجھئے کہ من و سلوی مل گیا۔ جب سال دو سال بعد یہ بچے گھر جاتے تو ان کی آدھی تنخواہ رکھ لی جاتی کہ بچے واپس آئے تو یہ تنخواہ ملے گی۔ ورنہ نہیں۔ سال یا دو سال سے قبل تو ان بچوں کے جانے کا سوال ہی نہیں ہوتا تھا۔ شاید عرب کفیلوں نے ہم سے یہ رویہ سیکھا ہے کہ پاس پورٹ رکھوا لیتے ہیں
جیسا کہ عام انسان کی عادت ہے، اچھی بات سیکھتے سیکھتے برسوں بیت جاتے ہیں، بری بات بندہ فوراً چند ہی منٹوں میں اپنا لیتا ہے۔ ہمارے گھر میں یہ رواج شروع ہوا کہ یہ محض انسان کی شکل کے جانور یا غلام ہیں۔ ان کے کوئی حقوق نہیں اور نہ ہی ان کو اپنے برابر تو کجا انسان یا انسان کا بچہ بھی نہیں سمجھنا چاہئے۔ ورنہ یہ "سر چڑھ" جائیں گے۔ اب ان کی ڈیوٹی کیا ہوتی ہے، ذرا نوٹ کیجئے:
صبح جب امی نے جاگنا تو انہیں بھی جگا دینا۔ اس کے بعد وہ ناشتہ تیار کرنے میں امی کی مدد کرتے، فرج سے کچن تک چیزیں لانا، لے جانا، ہم بہن بھائیوں کے بستے تیار کرنا، ہمیں ناشتہ لا کر دینا، خالی برتن لے جانا (یہ سوچنا تو محض حماقت ہی ہوگی کہ ہمیں جو ناشتہ ملتا، وہ ان بے چاروں کے لئے کتنا مرغوب ہوتا، لیکن وہ اسے دیکھ سکتے، چھو نہ سکتے)، پھر انہیں ناشتہ دیا جاتا جو بالعموم پچھلی رات کی بچی ہوئی روٹی ہوتی، جسے توے پر سینک کر ہلکا سا گھی لگا کر رات کے سالن کے ساتھ، اگر سالن نہ ہوتا تو پانی یا چائے کے ساتھ دی جاتی۔ اس کے بعد گھر کی صفائی شروع ہوتی۔ سارے گھر کے فرش پر جھاڑو پھیرنا، پھر پوچا لگانا، پھر سبزی وغیرہ لانا (جو کئی کلومیٹر دور سے لانی ہوتی)، پھر اگر موسم گرما ہوتا تو دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں جا کر تندور سے روٹیاں لگوا لانا بھی انہی بچوں کے ذمے ہوتا۔ بعض اوقات یہ بچے دو بہن بھائی، دو بھائی یا دو بہنیں ہوتے۔ پھر سب گھر والے الگ اور یہ بچے الگ بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ پھر قیلولہ ہوتا جو یہ بچے بھی انجوائے کرتے۔ شام کو یہی روٹین ہوتی، بس فرق یہ تھا کہ شام کو تندور پر روٹیاں لگوانے کا رواج نہیں تھا۔ رات کو جب سب سوتے تو ان بچوں کو بھی سونے کی اجازت ملتی۔
یہاں تک کی روٹین تو شاید کئی گھروں کی عام داستان ہو۔ اصل اذیت ناک یاد یہ ہے کہ امی کی عادت تھی کہ ان بچوں کے ساتھ کبھی بہت سختی اور کبھی بہت نرمی کرتیں۔ اس معاملے میں وہ اپنے بچوں اور ان بچوں میں ذرا فرق نہ کرتیں۔ یعنی بات بے بات جس طرح ہماری دھنائی ہوتی، یہ بچے بھی اسی شفقت سے پٹتے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا کہ امی کا جی نہیں چاہ رہا یا بہت سخت مار پڑوانی ہو تو امی ہم بہن بھائیوں سے ان بچوں کو پٹواتی تھیں۔ ہم بہن بھائی چونکہ خود بھی اکثر پٹتے تھے، ہمیں علم تھا کہ کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ ہم بہن بھائی ان بچوں کو امی سے نظر بچا کر کبھی کبھی انسان سمجھ لیا کرتے۔ کبھی انہیں کوئی ٹافی دے دی، کبھی چیونگ گم اور کبھی کچھ اور۔ ہماری عمریں ایک جتنی ہی ہوتی تھیں۔ ہم کھیلتے بھی ایک ساتھ ہی تھے۔ اس لئے امی جب بھی ہمیں کہتیں کہ اس بچے یا بچی کو مارو تو ہم ہمیشہ انہیں لے کر دور کونے میں یا دوسرے کمرے میں چلے جاتے۔ ہم بہن بھائیوں اور ان بچوں کے درمیان ایک ان کہا معاہدہ ہوتا تھا کہ ہم صرف یہ شو کریں گے کہ ہم مار رہے ہیں اور وہ شو کریں گے کہ وہ مار کھا رہے ہیں۔ امی اتنی دور ہوتیں کہ انہیں مارنے کی آواز تو نہ سنائی دیتی، لیکن بچوں کے شور کو سن کر مطمئن ہو جایا کرتی تھیں کہ خوب پٹائی ہو رہی ہے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ امی نے مجھے خاص تاکید کی کہ اس بچے کو اچھی طرح مارو کہ اس نے برتن دھونے سے انکار کیا ہے۔ شومئ قسمت، امی کا موڈ بہت خراب تھا۔ تاکید ہوئی کہ میرے سامنے مارو۔ میں نے پس و پیش کیا تو مجھے مار پڑنے لگی۔ ظاہر ہے کہ میں کوئی فرشتہ نہیں، اپنی جان سب کو پیاری ہوتی ہے، اگر کسی دوسرے کو مار پڑنی ہے تو مجھے کیا، میری تو جان چھوٹ جائے گی۔ اس دن پہلی اور آخری بار میں نے ملازم بچے پر ہاتھ اٹھایا۔ دو تھپڑ مارے۔ یقین کیجئے کہ وہ بچہ جو ڈنڈے سے مار کھا کر بھی کبھی سر نہ اٹھاتا، تھپڑ لگتے ہی اس نے سر اٹھایا اور سیدھا میری آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ بچہ جیسے پوچھ رہا ہو، اے خدا، کیا تو واقعی وجود رکھتا ہے؟ اس وقت امی کا ڈنڈا میری کمر پر پڑا کہ لات مارو۔ اس وقت میں نے پوری ہمت جمع کی اور لات ماری۔ اس رات نہ امی سو سکیں اور نہ میں۔ میرے پیر کی تین ہڈیاں فریکچر ہوئی تھیں کہ وہ لات میں نے دیوار پر ماری تھی۔مجھے درد سے اور امی کو پتہ نہیں ہمدردی، ممتا یا شاید غصے کی وجہ سے نیند نہیں آئی ہوگی؟
پس نوشت: نیرنگ خیال بھائی، جب میں نے ماں والے دھاگے پر وکٹم والی بات کی تھی، تو اس کے پیچھے یہ اور اسی جیسے ان گنت واقعات ہیں