اے دوست ذرا اور قریب رگِ جاں ہو
کیا جانے کہاں تک شب ہجراں کا دھواں ہو
میں ایک زمانے سے تمہیں ڈھونڈ رہا ہوں
تم ایک زمانے سے خدا جانے کہاں ہو
میں اس کو ترے نام سے تعبیر کرونگا
وہ پھول جسے قربت ِشبنم بھی گراں ہو
شاید یہ میری آنکھ سے گرتا ہوا آنسو
احباب کی بھولی ہوئی منزل کا نشاں ہو
خیال امروہوی
شمشاد بھائی کی نظر
کیا جانے کہاں تک شب ہجراں کا دھواں ہو
میں ایک زمانے سے تمہیں ڈھونڈ رہا ہوں
تم ایک زمانے سے خدا جانے کہاں ہو
میں اس کو ترے نام سے تعبیر کرونگا
وہ پھول جسے قربت ِشبنم بھی گراں ہو
شاید یہ میری آنکھ سے گرتا ہوا آنسو
احباب کی بھولی ہوئی منزل کا نشاں ہو
خیال امروہوی
شمشاد بھائی کی نظر