حفیظ جالندھری اے دوست مِٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں

طارق شاہ

محفلین
غزل
حفیظ جالندھری
اے دوست مِٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں
اس دردِ دوستی کی دوا ہو گیا ہوں میں
قائم کِیا ہے میں نے فنا کے وجود کو
دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں
نا آشنا ہیں رتبۂ دیوانگی سے دوست
کمبخت جانتے نہیں، کیا ہو گیا ہوں میں
ہنسنے کا اعتبار، نہ رونے کا اعتبار
کِیا زندگی ہے جس پہ فدا ہو گیا ہوں میں
ہمّت بُلند تھی مگر افتاد دیکھنا !
چپ چاپ آج محوِ دُعا ہو گیا ہوں میں
یہ زندگی فریبِ مسلسل نہ ہو کہیں
شاید اسیرِ دامِ بَلا ہو گیا ہوں میں
اُٹّھا ہوں اک جہانِ خموشی لئے ہوئے
ٹُوٹے ہوئے دِلوں کی صدا ہو گیا ہوں میں
حفیظ جالندھری
 

سید زبیر

محفلین
یہ زندگی فریبِ مسلسل نہ ہو کہیں
شاید اسیرِ دامِ بَلا ہو گیا ہوں میں
بہت خوب شاہ صاحب ۔ ۔ ۔ نہائت عمدہ کلام ہے
 

طارق شاہ

محفلین
بہت ہی خوب انتخاب جناب طارق صاحب!۔ خوش رہیئے۔۔
یہ زندگی فریبِ مسلسل نہ ہو کہیں
شاید اسیرِ دامِ بَلا ہو گیا ہوں میں
بہت خوب شاہ صاحب ۔ ۔ ۔ نہائت عمدہ کلام ہے

محترمین، جناب کاشفی، جناب بٹ اور جناب سید صاحب!
خوشی ہوئی کہ انتخاب آپ حضرات کو پسند آیا
اظہار خیال کے لئے ممنون ہوں
تشکّر

بہت خو ش رہیں آپ سب
 
اے دوست مٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں
اس دور دوستی کی دوا ہو گیا ہوں میں

قائم کیا ہے میں نے عدم کے وجود کو
دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں

ہمت بلند تھی مگر افتاد دیکھنا
چپ چاپ آج محو دعا ہو گیا ہوں میں

یہ زندگی فریب مسلسل نہ ہو کہیں
شاید اسیر دام بلا ہو گیا ہوں میں

ہاں کیف بے خودی کی وہ ساعت بھی یاد ہے
محسوس کر رہا تھا خدا ہو گیا ہوں میں
حفیظ جالندھری​
 
Top