طارق شاہ
محفلین
غزل
حفیظ جالندھری
اے دوست مِٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں
اس دردِ دوستی کی دوا ہو گیا ہوں میں
قائم کِیا ہے میں نے فنا کے وجود کو
دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں
نا آشنا ہیں رتبۂ دیوانگی سے دوست
کمبخت جانتے نہیں، کیا ہو گیا ہوں میں
ہنسنے کا اعتبار، نہ رونے کا اعتبار
کِیا زندگی ہے جس پہ فدا ہو گیا ہوں میں
ہمّت بُلند تھی مگر افتاد دیکھنا !
چپ چاپ آج محوِ دُعا ہو گیا ہوں میں
یہ زندگی فریبِ مسلسل نہ ہو کہیں
شاید اسیرِ دامِ بَلا ہو گیا ہوں میں
اُٹّھا ہوں اک جہانِ خموشی لئے ہوئے
ٹُوٹے ہوئے دِلوں کی صدا ہو گیا ہوں میں
حفیظ جالندھری