ہوں پریشاں کہ کیا ہے توں اے زندگی
ترے رنگ میں ڈھلا کون ہے؟ اے زندگی
میں ہوں کس لیے، کس کے لیے یہاں
توں کیوں اٹھائے پھرتی ہے مجھے، اے زندگی
زمیں بوجھل نہیں ہوتی؟ آدمی کو اٹھائے ہوئے
آدمی تو بوجھل ہے غموں سے اے زندگی
اگر تیرے نصیب میں قضا ہی ہے تو
اس قدر رنگینیاں کس لیے ہیں؟ اے زندگی
آسماں وسیع ہے، زمین دراز ہے مگر
آدمی کیوں اتنا پریشان ہے؟ بتا اے زندگی
سب اسی زمیں کے فرزند ہیں تو پھر
حاکم و محکوم کیا ہے، ذات پات کیا ہے اے زندگی
ہوتا نہیں مقصود اگر تعبیر ہو جانا
تو دکھاتی ہے کیوں خواب توں اے زندگی
میری امیدوں کے یہاں لاکھوں کارواں لوٹے گئے
اور جانے کہاں کہاں ہے تیرا پڑاو اے زندگی
پہلے تو طلب میں مارا جاتا ہے آدم زاد اور پھر
اوپر سے سہتا ہے تیرا سخت مزاج اے زندگی
مجھ کو فریب دے گیا میرا ہی نفس ورنہ
تیرے شیطانوں کا چلا ہے کب مجھ پر وار اے زندگی
مجھ کو یاد ہے وہ ماں کی لوری اور گود کی نیند
پھر اس کے بعد تیرا گیت تیرا بستر اے زندگی
عمر کو کھا گئی یہاں ہمیشہ رہنے کی آرزو
اگرچہ ایک اور زندگی ہے تیرے بعد اے زندگی
 
Top