ابن رضا
لائبریرین
ہرچند عنایات کے قابل تو نہیں ہوں
اے زیست تری راہ میں حائل تو نہیں ہوں
مانا کہ خطاوارِ محبت ہوں میں لیکن
اے چشمِ تماشا کوئی قاتل تو نہیں ہوں
ہرگام پہ مل جائیں گے خورشید تجھے اور
میں ذَرَّۂ نا چِیز ہوں کامل تو نہیں ہوں
وہ ترکِ تعلق میں پہل کیوں نہیں کرتا
ہر بات سمجھتا ہوں میں جاہل تو نہیں ہوں
کیا جانیے کیونکر ہے سہی بے رخی اُس کی
اِس درجہ شکیبائی کا قائل تو نہیں ہوں
میراثِ محبت ہے فقط کربِ مسلسل
انجامِ وفا تجھ سے میں غافل تو نہیں ہوں
کیا سوچ کے نکلے ہو رضا ڈوبنے مجھ میں
اِک موجِ سمندر ہوں میں ساحل تو نہیں ہوں
آخری تدوین: