اے سوزِ ناتمام اذیّت نہ دے مجھے --- محموداحمد غزنوی

ایک تازہ غزل۔ ۔ ۔ ۔
اے سوزِ ناتمام اذیّت نہ دے مجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مرنے دے زندگی کی وصیّت نہ دے مجھے
اک لگن سے لگی رہے سُلگن وجود میں۔ ۔ ۔
شعلہ سی جل بجھے وہ طبعیت نہ دے مجھے
صندل وجود ہوگیا ہے راکھ اور دھواں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خوشبو بکھیرنے دے جمعیت نہ دے مجھے۔ ۔ ۔ ۔
میں‌ ہوں ترا جمال ہے وہمِ دوئی بھی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیفِ وصال میں یہ اذیّت نہ دے مجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں خوابِ عدم میں تھا، بڑی بیخودی میں تھا۔ ۔ ۔ ۔
مجھ کو جگا کے عذرِ مشیئت نہ دے مجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رحمت کا یہ پیام تھا اے شیخِ کم نظر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نفرت بنا کے درسِ شریعت نہ دے مجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
اس غزل میں قوافی کی غلطیاں ہیں، مطلع سے لگتا ہے کہ اذیت، مشیت، وصیت جیسے قوافی ہوں گے۔ لیکن اسی میں طبیعت اور شریعت بھی باندھا گیا ہے، یہ دونوں الگ الگ قوافی ہیں، ان کو علیحدہ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ مصرع بحر سے خارج ہیں، وہی دوسری بحر شامل ہو گئی ہے۔
اک لگن سے لگی رہے سُلگن وجود میں۔ (لیکن تب بھی لگن، گاف پر سکون بحر میں آتا ہے، درست لَ گَ ن ہے
اور
میں خوابِ عدم میں تھا، بڑی بیخودی میں تھا
 
Top