جوش اے شیخِ شہر! - جوش ملیح آبادی

حسان خان

لائبریرین
اے شیخِ شہر، خرقۂ سالوس اتار دے
دل کو بھی مثلِ کاکلِ شب گوں سنوار دے
رہتا ہے اوجِ نطق پہ جس ماہ وش کا نام
اُس ماہ وش کو خلوتِ دل میں بھی بار دے
ہر دل پہ کَندہ کرتا ہے جو نقشِ دل نشیں
خود اپنی لوحِ جاں پہ بھی وہ نقش ابھار دے
جس درسِ خاص کی ہیں مریدوں پہ بارشیں
اپنے کو بھی وہ درسِ ملائک شکار دے
تا چند دوسروں کے نکھارا کرے گا رنگ؟
اپنا بھی رنگ، بہرِ خدا، اب نکھار دے
اِس طرّۂ کلاہ کی تزئین تا کجا؟
باطن کے تاج کو بھی دُرِ شاہوار دے
جس کو لُٹا رہا ہے زمانے پہ بے دریغ
اپنے کو بھی وہ دولتِ عرفانِ یار دے
برسیں گے پھول جنتِ سلطاں پہ تا بہ کے؟
دشتِ گدائے راہ کو بھی برگ و بار دے
تا چند منعموں کے لیے مژدۂ چمن؟
بے زر کو بھی پیامِ نسیمِ بہار دے
کیوں جوش الجھ رہا ہے عبث شیخِ شہر سے
یہ نشہ وہ نہیں جسے تُرشی اتار دے
(جوش ملیح آبادی)
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ
یہ نشہ وہ نہیں جسے ترشی اتار دے ۔۔۔۔۔۔۔۔
لاجواب شراکت
 
Top