La Alma
لائبریرین
اے عقلِ کم شناس! ہوئی کارگر نہ چال
تدبیرِ عشق نے تری، جینا کیا محال
چاروں طرف سکوت ہے، سُر ہے نہ کوئی تال
عالم پھر آئے وجد میں اب ساز تُو سنبھال
کس طور لب پہ حرفِ تمنا کو لائیے
مقدور کب ہمیں ہے ابھی جراتِ سوال
عیش و نشاط نے کیا بیگانہء خرد
اترے خُمار آج، مئے غم ذرا اچھال
اوجِ فلک مقامِ تحیر سے ہے پرے
حیرت ہمیں بھی لائی ہے تا نقطہء کمال
کیوں ہے گلہ خدا کو، تراشے جو چند بُت
ہے کائنات آپ صنم خانہء خیال
اپنی لحد پہ وقت نہ ٹھہرا پھر ایک پل
ہم کھینچتے ہی رہ گئے دامانِ ماہ و سال
مدیر کی آخری تدوین: