اے غمِ عمرِ رواں، طولِ ستم کی حد بھی ہو گی

La Alma

لائبریرین
اے غمِ عمرِ رواں، طولِ ستم کی حد بھی ہو گی
جاں الم دیدہ کبھی آسودۂ مرقد بھی ہوگی

آئے گا حسنِ فزوں تر کو زوال آخر کوئی دم
کوچۂ صد ناز میں تنقیصِ خال و خد بھی ہو گی

لوگ کہتے ہیں کہ یہ حرص و ہوس کا ہے مرکب
ہے یقیں جنسِ محبت صورتِ مفرد بھی ہو گی

ڈھونڈھ لے گا اب کوئی گم کردہ رازوں کے دفینے
شہرِ دل میں محرمِ اسرار کی آمد بھی ہو گی

گر الگ ہیں پارسا سب ، اس میں آخر کیا عجب ہے
روزِ محشر ہے، یہاں تخصیصِ نیک و بد بھی ہو گی

کیا خبر تھی جب اٹھائے تھے دعا کو ہاتھ ہم نے
ایک دن پیشِ خدا یوں بات اپنی رد بھی ہو گی

وقت کی صورت گری المٰیؔ کہاں تک ہوگی ممکن
عہد سازو! عالمِ تمثال کی سرحد بھی ہو گی​
 
اے غمِ عمرِ رواں، طولِ ستم کی حد بھی ہو گی
جاں الم دیدہ کبھی آسودۂ مرقد بھی ہوگی

آئے گا حسنِ فزوں تر کو زوال آخر کوئی دم
کوچۂ صد ناز میں تنقیصِ خال و خد بھی ہو گی

لوگ کہتے ہیں کہ یہ حرص و ہوس کا ہے مرکب
ہے یقیں جنسِ محبت صورتِ مفرد بھی ہو گی

ڈھونڈھ لے گا اب کوئی گم کردہ رازوں کے دفینے
شہرِ دل میں محرمِ اسرار کی آمد بھی ہو گی

گر الگ ہیں پارسا سب ، اس میں آخر کیا عجب ہے
روزِ محشر ہے، یہاں تخصیصِ نیک و بد بھی ہو گی

کیا خبر تھی جب اٹھائے تھے دعا کو ہاتھ ہم نے
ایک دن پیشِ خدا یوں بات اپنی رد بھی ہو گی

وقت کی صورت گری المٰیؔ کہاں تک ہوگی ممکن
عہد سازو! عالمِ تمثال کی سرحد بھی ہو گی​
المیٰ صاحبہ ، جو اشعار سمجھ میں آئے ، اچھے لگے . داد حاضر ہے . البتہ مطلع میں ’جانِ الم دیدہ‘ کا مقام تھا ، لیکن ظاہر ہے وہ بحر میں فٹ نہیں ہو گا . ’جانِ آزردہ‘ جیسے کسی مرکب پر غور نہیں کیا ؟
 
البتہ مطلع میں ’جانِ الم دیدہ‘ کا مقام تھا ، لیکن ظاہر ہے وہ بحر میں فٹ نہیں ہو گا
یوں ہوسکتاتھا :
جانِ غم دیدہ کبھی آسودۂ مرقد بھی ہوگی
مگر جوبات اِس موقع پر لفظ ’الم‘ میں ہے وہ ’غم ‘ میں نہیں ۔ غم ایک احساس ہے جو آنسو بہالینے سے کم ہوجاتا ہے جبکہ الم عذابِ عظیم یعنی وہ تکلیف ہے جس کی شدت بڑھتی چلی جائے کسی بھی طرح کم ہونے میں نہ آئے ۔ دنیا میں اِس کربناک صورتحال سے نمٹنے کی ایک صورت موت ہی ہوسکتی ہے لیکن مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟
بہرحال مطلع باوجود اِس شاعرانہ جبرکے قابلِ تعریف ہے،واہ!
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
المیٰ صاحبہ ، جو اشعار سمجھ میں آئے ، اچھے لگے . داد حاضر ہے . البتہ مطلع میں ’جانِ الم دیدہ‘ کا مقام تھا ، لیکن ظاہر ہے وہ بحر میں فٹ نہیں ہو گا . ’جانِ آزردہ‘ جیسے کسی مرکب پر غور نہیں کیا ؟
آپ کی آرا کا بہت شکریہ!
آپ کا تجویز کردہ متبادل بھی خوب ہے۔
ترکیب کے لحاظ سے جانِ غم دیدہ ہی میری اول ترجیح تھی لیکن دونوں مصارع میں غم کی تکرار بھلی معلوم نہیں ہو رہی تھی اور دوسرے جو مقصود تھا اسکاصحیح طور احاطہ بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔
اضافت کے بغیر بھی مجھے تو مفہوم ادا ہوتا ہوا لگ رہا ہے گو کہ مرکب میں زیادہ فصیح ہے۔ نظرِ ثانی تو بہرحال کی ہی جا سکتی ہے۔
 
Top