عباد اللہ
محفلین
عالمی ادبیات میں باہم دگر اخذ و استفادے کا سلسلہ شروع دن سے رائج بلکہ بارآور رہا ہے، علما کی آراء کا معاملہ البتہ اس حوالے سے اپنی بھیرویں اور اپنی ڈفلی کا سا ہے یعنی جتنے اذہان اتنے نظریے یا گستاخی معاف جتنی زبانیں اتنے نظریے۔ فقیر بھی چونکہ ایک سے زائد ادبی روایات کا طالب علم ہے اور کور نظری اور کج ذوقی میں بہ فیضِ فطرت خودکفیل پس کئی کئی راتیں ایک ایک فقرے کی تفہیم کی نذر ہوئیں ۔ ایک پہلو اس سفر کا قابلِ لحاظ یہ بھی ہے کہ فقط التباسِ فہم ہی کے زور پر کیا کیا معرکے سر نہیں کئے۔ تفصیل اس اجمال کی پھر سہی سرِ دست ایسا ہی ایک معرکہ پیشِ خدمت ہے! یہ نظم ایک انگریزی کھیل کے ایک ٹکڑے سے ماخوذ ہے ۔ کھیل کے بارے مصحفی سے پوچھیں تو فرمائیں
اے محفلِ رنگ و نور رخصت
اے خرمی و سرور رخصت
ہو فصل کہ وصل بے یقینی
ہستی کی ہے اصل بے یقینی
تا چند یہ ارتباطِ شہوت
بے مائع ہے انبساطِ شہوت
گو اور نہیں خبر کسی کو
پر راہِ مفر نہیں کسی کو
موت اپنی سناں اچھالتی ہے
لذات پہ خاک ڈالتی ہے
کب رشتہ ء جان و تن ہے دائم
تا دیر نہیں رہے گا قائم
اے ربِ کریم رحم کیجو!
۔
اتنا ہے تونگروں سے کہنا
دولت کے نہ آسرے پہ رہنا
کچھ مول گراں ہیں اس گہر کے
بے صرفہ ہیں ڈھیر سیم و زر کے
اس چاہ میں جاں سے جاؤ گے تم
صحّت نہ خرید پاؤ گے تم
کون اور کہاں کی چارہ سازی
ہوتی نہیں اب یہ نے نوازی
یہ گرز طبیب بھی سہیں گے
سب ملکِ عدم میں جا بسیں گے
ہے قہر بہت غضب بہت ہے
اس سیل میں تاب و تب بہت ہے
اے ربِ کریم رحم کیجو
۔۔
گو یک گلِ نو دمیدہ ہے حسن
زیبِ دل و زیبِ دیدہ ہے حسن
ایمائے دلِ حیات ہے یہ
خوش کن ہے پہ بے ثبات ہے یہ
گردش ہے فلک کے آسیا کی
نا پختہ گرفت ہے ہوا کی
چاہے بھی تو کیسے تھام پائے
رخشانی و روشنی کے ہالے
ہستی کا مگر شعار ہے یہ
رمزیتِ ہر بہار ہے یہ
اے رب کریم رحم کیجیو
.
کیا کیا نہ شجاع اور جری تھے
رشکِ ہنرِ دلاوری تھے
تھی شان مبارزت کی جن سے
آرائشِ انجمن تھی جن سے
سب نام و نشان کھو گئے ہیں
کیڑوں کی خوراک ہو گئے ہیں
کیا فرق خذف ہو یا نگینہ
اتریں گے سبھی یہ ایک زینہ
ہر آن ہے نزع ہی کا ہنگام
پہنچا کسی نام اجل کا پیغام
کچھ حل نہ نکل سکا کسی سے
ٹالے نہیں ٹل سکا کسی سے
ہے تند بہت لپیٹ اب بھی
بھرتا نہیں اس کا پیٹ اب بھی
اے رب کریم رحم کیجیو
.
اب ٹوٹ رہی ہے گر تھی کچھ آس
چارہ نہ رہا خرد کے بھی پاس
انجام سے کون بے خبر ہے
تلخاب سے حلق تر بتر ہے
بجھتی ہے پر آخری بھی قندیل
واں کون سنے گا کوئی تاویل
اول تو کوئی نہیں سنے گا
سن بھی لے تو بس یہی کہے گا
ہے کس کو دماغ! اتنی تفصیل!!
یہ خام و ضعیف و لغو تمثیل!!
اے رب کریم رحم کیجیو
.
کچھ توشہ و رخت باندھیو اب
اسباب سفر اٹھائیو اب
ہنستے ہوئے اس گھڑی سے ملیو
تقدیر سے خوش دلی سے ملیو
گو یوں تو ہر اک نگاہ میں ہے
فنکار تماشا گاہ میں ہے
لحظے کا مگر نہیں یہ نیرنگ
یہ طور جہاں کے ہیں یہی ڈھنگ
ہم کو ہے فلک کے پار جانا
مسکن کہ وہی تو ہے ابا کا
اسے انگریزی ادب کے منظوم تراجم کے سلسلے ہی کی ایک لڑی سمجھنا جائے اور توقع رکھی جائے کہ فقیر گاہے گاہے ایسی گستاخیاں پیش کرتا رہے گااس درجہ عمیق اورخوش آہنگ و خوش اسلوب
اس کھیل کی ایک ایک ادا لے گئی دل کو
اے محفلِ رنگ و نور رخصت
اے خرمی و سرور رخصت
ہو فصل کہ وصل بے یقینی
ہستی کی ہے اصل بے یقینی
تا چند یہ ارتباطِ شہوت
بے مائع ہے انبساطِ شہوت
گو اور نہیں خبر کسی کو
پر راہِ مفر نہیں کسی کو
موت اپنی سناں اچھالتی ہے
لذات پہ خاک ڈالتی ہے
کب رشتہ ء جان و تن ہے دائم
تا دیر نہیں رہے گا قائم
اے ربِ کریم رحم کیجو!
۔
اتنا ہے تونگروں سے کہنا
دولت کے نہ آسرے پہ رہنا
کچھ مول گراں ہیں اس گہر کے
بے صرفہ ہیں ڈھیر سیم و زر کے
اس چاہ میں جاں سے جاؤ گے تم
صحّت نہ خرید پاؤ گے تم
کون اور کہاں کی چارہ سازی
ہوتی نہیں اب یہ نے نوازی
یہ گرز طبیب بھی سہیں گے
سب ملکِ عدم میں جا بسیں گے
ہے قہر بہت غضب بہت ہے
اس سیل میں تاب و تب بہت ہے
اے ربِ کریم رحم کیجو
۔۔
گو یک گلِ نو دمیدہ ہے حسن
زیبِ دل و زیبِ دیدہ ہے حسن
ایمائے دلِ حیات ہے یہ
خوش کن ہے پہ بے ثبات ہے یہ
گردش ہے فلک کے آسیا کی
نا پختہ گرفت ہے ہوا کی
چاہے بھی تو کیسے تھام پائے
رخشانی و روشنی کے ہالے
ہستی کا مگر شعار ہے یہ
رمزیتِ ہر بہار ہے یہ
اے رب کریم رحم کیجیو
.
کیا کیا نہ شجاع اور جری تھے
رشکِ ہنرِ دلاوری تھے
تھی شان مبارزت کی جن سے
آرائشِ انجمن تھی جن سے
سب نام و نشان کھو گئے ہیں
کیڑوں کی خوراک ہو گئے ہیں
کیا فرق خذف ہو یا نگینہ
اتریں گے سبھی یہ ایک زینہ
ہر آن ہے نزع ہی کا ہنگام
پہنچا کسی نام اجل کا پیغام
کچھ حل نہ نکل سکا کسی سے
ٹالے نہیں ٹل سکا کسی سے
ہے تند بہت لپیٹ اب بھی
بھرتا نہیں اس کا پیٹ اب بھی
اے رب کریم رحم کیجیو
.
اب ٹوٹ رہی ہے گر تھی کچھ آس
چارہ نہ رہا خرد کے بھی پاس
انجام سے کون بے خبر ہے
تلخاب سے حلق تر بتر ہے
بجھتی ہے پر آخری بھی قندیل
واں کون سنے گا کوئی تاویل
اول تو کوئی نہیں سنے گا
سن بھی لے تو بس یہی کہے گا
ہے کس کو دماغ! اتنی تفصیل!!
یہ خام و ضعیف و لغو تمثیل!!
اے رب کریم رحم کیجیو
.
کچھ توشہ و رخت باندھیو اب
اسباب سفر اٹھائیو اب
ہنستے ہوئے اس گھڑی سے ملیو
تقدیر سے خوش دلی سے ملیو
گو یوں تو ہر اک نگاہ میں ہے
فنکار تماشا گاہ میں ہے
لحظے کا مگر نہیں یہ نیرنگ
یہ طور جہاں کے ہیں یہی ڈھنگ
ہم کو ہے فلک کے پار جانا
مسکن کہ وہی تو ہے ابا کا
آخری تدوین: