جوش اے مرتضیٰ (از شعلہ و شبنم)

اے مرتضیٰ، مدینۂ علمِ خدا کے باب!
اسرارِ حق ہیں، تیری نگاہوں پہ بے نقاب
ہے تیری چشم فیض سے اسلام کامیاب
ہر سانس ہے مکارم اخلاق کا شباب
نقشِ سجود میں، وہ ترے سوز و ساز ہے
فرشِ حرم کو جس کی تجلی پہ ناز ہے

اے نورِ سرمدی سے، درخشاں ترا چراغ
مہکے ہوئے ہیں، تیرے نفس سے دلوں کے باغ
حاصل ہے ماسویٰ سے تجھے کس قدر فراغ
تو معرفت کا دل ہے تو حکمت کا ہے دماغ
تیرے حضور دفتر قدرت لئے ہوئے
قدسی کھڑے ہیں شمع امامت لئے ہوئے

آئین رزم و بزم کی ہے تجھ سے آبرو
ہر بات بر محل ہے، مناسب ہر ایک خو
سختی کہیں رجز کی، کہیں نرم گفتگو
برسا رہا ہے پھول کہیں، اور کہیں لہو
لوح ادب پہ کلک، نسیم بہار ہے
میدان میں جھلکتی ہوئی ذوالفقار ہے

اے تیری شان، قلعۂ خیبر سے آشکار
رحلت کی شب رسول کے بستر سے آشکار
خونِ گلوئے مرحب و انتر سے آشکار
گردوں پہ جبرئیل کے شہپر سے آشکار
چرچا یہاں بھی، تیغ کا تیری، وہاں بھی ہے
رطب اللساں زمیں ہی نہیں، آسماں بھی ہے

اے جوشؔ! دیکھ سیرت مولائے شیخ و شاب
ہر فعل بے نظیر ہے، ہر قول لا جواب
یاں جنبش نظر سے ہے گردش میں آفتاب
سن گوشِ حق نیوش سے اک قولِ بوتراب
یہ قول ہے کلید درِ کائنات کی
یعنی اجل ہے خود ہی محافظ حیات کی

(نظم طویل ہے، تبرکاً اقتباس پیش ہے۔)
 
Top