حسیب احمد حسیب
محفلین
اے مری معصوم بہنا
اے مری معصوم بہنا تجھ پہ ہے لازم حجاب
سادگی کا تو ہے پیکر تو بہت عزت مآب
بے حجابی کی ہوائیں چل رہی ہیں چار سو
تو خدا کے واسطے خود کو نہیں کرنا خراب
بے حیائی کے اندھیرے بڑھ رہے ہیں دن بہ دن
بن کے ابھرے گی حیاء تیری زمیں سے آفتاب
جھوٹ ہیں سارے یہ آزادی کے وعدے یہ قرار
ریشمی چالیں ہیں انکی دائو انکے لا جواب
تو کہیں دھوکے میں انکے آگئی تو موت ہے
لوٹنے کو بھیڑیے بے تاب ہیں تیرا شباب
مردوزن کا محفلوں میں ہو رہا ہے اختلاط
اے مری بہنا مگر تو ان سے کرنا اجتناب
تو خدا کے سامنے جائے گی اک دن سرخرو
شرط بس اتنی سی ہے کرتی رہے گر تو حجاب
تیری نسبت فاطمہ سے ہے تری حرمت قدیم
بے حیائی کا نہیں کرنا کبھی تو ارتکاب
آبگینے کی طرح نازک ترے جذبات ہیں
میں کبھی آنے نہیں دونگا تری آنکھوں میں آب
اور بھی ہیں نیکیاں اس دور میں ممکن مگر
با حجابی سے نہیں بڑھ کر کوئی دوجا ثواب
روشنی ہے میرے آنگن میں تجھی سے اے بہن
میرے گلشن میں کھلے ہیں تیرے ہی دم سے گلاب
ہے ترے دم سے ہی روشن یہ جہان رنگ و بو
اک تجلی نور کی مستور ہے زیر نقاب
کوئی کتنا بھی کہے لیکن کبھی نہ بھولنا
اے مری معصوم بہنا تجھ پہ لازم ہے حجاب
حسیب احمد حسیب
اے مری معصوم بہنا تجھ پہ ہے لازم حجاب
سادگی کا تو ہے پیکر تو بہت عزت مآب
بے حجابی کی ہوائیں چل رہی ہیں چار سو
تو خدا کے واسطے خود کو نہیں کرنا خراب
بے حیائی کے اندھیرے بڑھ رہے ہیں دن بہ دن
بن کے ابھرے گی حیاء تیری زمیں سے آفتاب
جھوٹ ہیں سارے یہ آزادی کے وعدے یہ قرار
ریشمی چالیں ہیں انکی دائو انکے لا جواب
تو کہیں دھوکے میں انکے آگئی تو موت ہے
لوٹنے کو بھیڑیے بے تاب ہیں تیرا شباب
مردوزن کا محفلوں میں ہو رہا ہے اختلاط
اے مری بہنا مگر تو ان سے کرنا اجتناب
تو خدا کے سامنے جائے گی اک دن سرخرو
شرط بس اتنی سی ہے کرتی رہے گر تو حجاب
تیری نسبت فاطمہ سے ہے تری حرمت قدیم
بے حیائی کا نہیں کرنا کبھی تو ارتکاب
آبگینے کی طرح نازک ترے جذبات ہیں
میں کبھی آنے نہیں دونگا تری آنکھوں میں آب
اور بھی ہیں نیکیاں اس دور میں ممکن مگر
با حجابی سے نہیں بڑھ کر کوئی دوجا ثواب
روشنی ہے میرے آنگن میں تجھی سے اے بہن
میرے گلشن میں کھلے ہیں تیرے ہی دم سے گلاب
ہے ترے دم سے ہی روشن یہ جہان رنگ و بو
اک تجلی نور کی مستور ہے زیر نقاب
کوئی کتنا بھی کہے لیکن کبھی نہ بھولنا
اے مری معصوم بہنا تجھ پہ لازم ہے حجاب
حسیب احمد حسیب