اے مزدورو خاک نشینو (کراچی بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کے مقتولین کے نام)

صادق آبادی

محفلین
رزقِ حلال کمانے والو
بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں جَل کر جان سے جانے والو
کاش تمہارا قاتل کوئی خود کش ہوتا
چند ہی گھنٹوں کے اندر جب تم راکھ کے ڈھیر میں کھو جاتے
اس خودکش کا سَر مِل جاتا

اہلِ سیاست، اہلِ صحافت، سب ہی تمہارا درد اٹھاتے
سول سوسائٹی دھرنے دیتی
این جی اوز، وکلا، دانشور، جرنیل سارے اس کی مذمت کرتے
علماء، مشائخ، پیر و فقیہ بھی فتوے دیتے
حرمتِ جانِ انسانی کا درس سناتے
جانتے بُوجھتے یوں نہ گزرتے تیس مہینے
حادثہ کہہ کر دل بہلاتے

آج اک قاتل پکڑا گیا ہے
جس نے یہ تسلیم کیا ہے
’’بیس کروڑ نہ ملنے پر یہ آگ لگائی تھی میں نے
اپنے بڑوں کے کہنے پر
میرا تعلق اِک سیاسی جماعت سے ہے‘‘
ایک سیاسی جماعت شجرِ ممنوعہ ہے
اسی لئے اب میڈیا اپنی حَد میں رہے گا
اینکر پرسن چپ سادھیں گے
دانشور خاموش رہیں گے
پِیر و مَشائخ اپنی اپنی خانقاہوں میں محوِ ذِکر و فکر رہیں گے
اہلِ سیاست کی اے پی سی یا کوئی مخصوص عدالت ، کچھ نہیں ہو گا

کاش تمہارا قاتل کوئی مُلّا ہوتا
لندن والا بھائی نہ ہوتا
وُرَثا بھائی سے ڈرتے ہیں
اسی لئے تو کوئی دہائی نہ کوئی گریباں چاک ہوا
خونِ خاک نشیناں رزقِ خاک ہوا


(شاہدؔ ریاض عباسی)
 

نظام الدین

محفلین
اہلِ سیاست، اہلِ صحافت، سب ہی تمہارا درد اٹھاتے
سول سوسائٹی دھرنے دیتی
این جی اوز، وکلا، دانشور، جرنیل سارے اس کی مذمت کرتے
علماء، مشائخ، پیر و فقیہ بھی فتوے دیتے
حرمتِ جانِ انسانی کا درس سناتے
جانتے بُوجھتے یوں نہ گزرتے تیس مہینے
حادثہ کہہ کر دل بہلاتے
بہت خوب ۔۔۔۔۔ لاجواب
 
Top