احمد علی
محفلین
السلام و علیکُم
عزیز آنِ من !
میں سچ میں شرمندہ ہوں اپنی زبان سے کہ آج بھی میں واجبی سی اُردو بولتا اور جانتا ہوں شاید یہی ندامت آپ لوگوں تک لے آئی
تعارف شروع کرتا ہوں
بندہ ناچیز کو احمد علی کہتے ہیں
کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کیا ہے
بھا ولنگر سے تعلق ہے
اسی بنا پر پیشے کے لحاظ سے سافٹ وئیر انجینئرہوں۔ کام کے دوران بہت سے غیر ملکیوں سے رابطے میں رہا۔ اسی دوران میں نے محسوس کیا کہ انگریز اپنی زبان کے بارے میں کافی فخر محسُوس کرتے ہیں جو مجھے شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہے۔
کیوں کہ میں تو یہ بھی نہیں کہ سکتا بقول داغ
اردو ہے جسکا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
شاعری کا شوق اس محفل تک لے آیا کیونکہ بقول گوئٹے
’’ شاعری میں دو قسم کے اناڑی ہوتے ہیں، اوّل وہ جو میکانکی پہلو کے بارے میں تساہل و تغافل کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے روحانیت اور جذبات سرائی کی نمائش کر دی تو بڑا کارِ نمایاں ادا کیا، دوسرا وہ جو محض میکانکی وسائل سے، جن میں وہ ایک کاری گر کی سی چابک دستی حاصل کر سکتا ہے، شاعری کی روح کو شیشے میں اتارنے کی کوشش کرتا ہے۔ ‘‘
بندہ ان اناڑیوںمیں اپنا نام نہیں لکھوانا چاہتا۔
اُمید کرتا ہوں یہاں اچھے اُساتذہ اور ساتھی ملیں گے جو بندہ کی صلاحیتوں کو گرد آلود ہونے سے بچا لیں گے۔
آخر میں اس شعر پہ اختتام کروں گا محمد بلال اعظم کا شُکریہ ادا کرتے ہوئے جنہوں نے یہاں تک رہنمائی کی
اک سنگِ بدنُما ہے بظاہر میرا تعارف
کوئی تراش لے تو بڑے کام کا ہوں میں