اے میری چار دن کی رفاقت

یہ کیا سمجھ رکھا ہے خود کو؟
یہ کیسے تلخ لہجے میں
تم مجھ سے بات کرتی ہو؟
کبھی بے مقصد باتوں پر
یوں اُلجھتی رہتی ہو

کبھی بے معنی لفظوں سے
یوں بھڑکتی رہتی ہو،
کہ جیسے ہر اک جذبے کو
جلا کے راکھ کر دو گی،
کبھی ہمراہ چلنے پر
شرطیں باندھ دیتی ہو،
کبھی ملنے کا جو کہہ دیں
تو افسانے سناتی ہو
بہانے سو بناتی ہو،
جوازوں کی تقاضوں کی
قطاریں باندھ دیتی ہو،
یہ بھی کہتی ہو
کہ تم بن جینا مشکل ہے،
مجھے تم چھوڑ دینے کی
تعلق توڑ لینے کی،
کبھی تم بات کرتی ہو،
تو سن لو غور سے گڑیا!
تعلق ٹوٹ جانے سے
وقت ٹھہر نہیں جاتا
کوئی مر نہیں جاتا،
مجھے تیری محبت میں
محبت ہی نہیں لگتی،
فقط اک بوجھ لگتی ہے
اک تجارت لگتی ہے،
میری تم واقف ہو کب ہو
چلو تم کو بتاتے ہیں
تیری دنیا دکھاتے ہیں،
تیرے جیسے حسینائیں
میرے قدموں پہ چلتی ہیں
میرے ناز اُٹھاتی ہیں،
میری راہیں سجاتی ہیں،
کہیں اک پل جو ٹھہروں تو
یوں پھسلتی آتی ہیں
جیسے پھول پر تتلیاں منڈلاتی ہیں،
لہجوں میں نزاکت،
لفظوں میں چاہت،
ہونٹوں پہ خواہش کی پیاس لے کر
آنکھوں میں محبت کی آس لے کر

یوں لپکتی آتی ہیں
جیسے بلبلیں گلشن میں چہچہاتی ہیں،
کبھی نظریں اُٹھاوں تو
یوں مچلتی ہیں جیسے،
خوشیاں مل گئی ہوں
دونوں جہانوں کی
کبھی نظریں جھکاوں تو
یوں مرجھا ہی جاتی ہیں
کہ دنیا چھن گئی اُن کی
پیاسی ہیں زمانوں کی،
مگر!
یہ کیسے زعم میں ہو تم؟
یہ کیسا وہم ہو تم کو؟
کہ تم ہی میری دنیا کا
آخری کنارہ ہو؟
کہ تم ہی میرے جینے کا
واحد سہارا ہو؟
کہ تم بن سو نہیں سکتے
کسی کے ہو نہیں سکتے؟
تیرے لفظوں تیرے لہجے کی زد میں،
کبھی جب میں آتا ہوں،
تو رستہ بدلنے پر
بہت کچھ سوچ لیتا ہوں،
تیری ایسی ادائیں ہیں،
جو مجھ کو مجبور کرتی ہیں،
سنو یہ غور سے جاناں!
اگر ہم ٹھان ہی بیٹھے
جدائی مان ہی بیٹھے،
تو جاناں بہت پچھتاؤ گی
تب آنسو بہاؤ گی
مجھے رو رو کی دکھاؤ گی
میرے قدموں سے لپٹو گی،
جدائی ٹھان ہی لی تو
مجھے تم روک نہ پاؤ گی،
میری طبیعت میں ہے یہ خصلت
جو لو محبت تو دو محبت،
کسی کے ہونا تو پورے ہونا
ادھورا رکھنا نہ ادھورا ہونا
سنگ جس کے چلنا
اُسی کا ہو کے جینا،
نہ شوق نمائش نہ ذوقِ آرائش
نہ کوئی دکھاوا نہ کوئی پچھتاوا،
نہ کوئی منافع نہ کوئی خسارا،
ہو جوکچھ ہمارا اُسی کا ہو سارا
اُس کا ہو جو کچھ وہ سارا ہمارا،
نہ شرطِ محبت نہ شرطِ تمنا
نہ کوئی افسانہ نہ کوئی بہانہ
تو پھر چاہے دشمن ہو سارا زمانہ
سنگ ہی جینا سنگ ہی مرنا،
اے میری چار دن کی رفاقت،
جذبوں میں تیرے نہیں ہے صداقت،
اگر یہ محبت کا ہے وقتِ رخصت
تو لوٹا دو مجھ میرے وعدے قسمیں،
معصوم جذبے وہ محبوب رسمیں،
مبارک ہوں تم تمہاری ادائیں،
جوازوں تقاضوں کی ساری بلائیں،
غرور و تکبر وہ لفظوں کا محشر
وہ کڑکتی بجلی وہ لہجے کی تلخی،
بے نور صبحیں وہ بے چہرہ شامیں،
وہ نوکیلی باتیں، وہ زہریلی راتیں،
مبارک ہوں تم تمہاری سوغاتیں،
تخلیق
محمد اطہر طاہر ہارون آباد
 
Top