اشرف علی
محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم سید عاطف علی صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح کی درخواست ہے _
غزل
اے میرے غم گسار ! مجھے کچھ نہیں پتا
میں کیوں ہوں سوگوار مجھے کچھ نہیں پتا
سچ کہہ رہا ہوں یار ! مجھے کچھ نہیں پتا
کس سے ہے اُس کو پیار ، مجھے کچھ نہیں پتا
اے میرے دوست دار ! مجھے کچھ نہیں پتا
کیوں دل ہے بے قرار ، مجھے کچھ نہیں پتا
مجھ کو پتا ہے اُس کو بھی ہے میرا انتظار
کس نے کہا ہے یار ! مجھے کچھ نہیں پتا ؟
کب آئے گا وصال کا موسم پلٹ کے پھر
کب آئے گی بہار ، مجھے کچھ نہیں پتا
نالج ہے اس کا مجھ کو نہ ہی تجربہ کوئی
ہوتا ہے کیسے پیار ، مجھے کچھ نہیں پتا
کیوں پوچھتے ہو مجھ سے ، کہاں ہیں وہ کیسے ہیں
میں نے کہا نہ یار ! مجھے کچھ نہیں پتا
یا
کیوں بار بار پوچھ رہے ہو وہی سوال
بولوں میں کتنی بار ، مجھے کچھ نہیں پتا
اوروں کی طرح مجھ سے نہیں پوچھا اُس نے کچھ
اُس کو تھا اعتبار مجھے کچھ نہیں پتا
ساحل سے جا کے کب لگے گی کشتئ حیات
کب ہوگا بیڑا پار ، مجھے کچھ نہیں پتا
جو شخص پونچھتا تھا کبھی دوسروں کے اشک
وہ کیوں ہے اشک بار ، مجھے کچھ نہیں پتا
اتنا پتا ہے بس کہ شگفتہ ہے اُس کا نام
اس سے زیادہ یار ! مجھے کچھ نہیں پتا
یا
اتنا مجھے پتا ہے شگفتہ ہے اُس کا نام
اب اس کے آگے یار ! مجھے کچھ نہیں پتا
اشرف ! یہ جھوٹ ہے کہ مِرے اُس کے درمیاں
ہے دوستی کہ پیار ، مجھے کچھ نہیں پتا
محترم سید عاطف علی صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح کی درخواست ہے _
غزل
اے میرے غم گسار ! مجھے کچھ نہیں پتا
میں کیوں ہوں سوگوار مجھے کچھ نہیں پتا
سچ کہہ رہا ہوں یار ! مجھے کچھ نہیں پتا
کس سے ہے اُس کو پیار ، مجھے کچھ نہیں پتا
اے میرے دوست دار ! مجھے کچھ نہیں پتا
کیوں دل ہے بے قرار ، مجھے کچھ نہیں پتا
مجھ کو پتا ہے اُس کو بھی ہے میرا انتظار
کس نے کہا ہے یار ! مجھے کچھ نہیں پتا ؟
کب آئے گا وصال کا موسم پلٹ کے پھر
کب آئے گی بہار ، مجھے کچھ نہیں پتا
نالج ہے اس کا مجھ کو نہ ہی تجربہ کوئی
ہوتا ہے کیسے پیار ، مجھے کچھ نہیں پتا
کیوں پوچھتے ہو مجھ سے ، کہاں ہیں وہ کیسے ہیں
میں نے کہا نہ یار ! مجھے کچھ نہیں پتا
یا
کیوں بار بار پوچھ رہے ہو وہی سوال
بولوں میں کتنی بار ، مجھے کچھ نہیں پتا
اوروں کی طرح مجھ سے نہیں پوچھا اُس نے کچھ
اُس کو تھا اعتبار مجھے کچھ نہیں پتا
ساحل سے جا کے کب لگے گی کشتئ حیات
کب ہوگا بیڑا پار ، مجھے کچھ نہیں پتا
جو شخص پونچھتا تھا کبھی دوسروں کے اشک
وہ کیوں ہے اشک بار ، مجھے کچھ نہیں پتا
اتنا پتا ہے بس کہ شگفتہ ہے اُس کا نام
اس سے زیادہ یار ! مجھے کچھ نہیں پتا
یا
اتنا مجھے پتا ہے شگفتہ ہے اُس کا نام
اب اس کے آگے یار ! مجھے کچھ نہیں پتا
اشرف ! یہ جھوٹ ہے کہ مِرے اُس کے درمیاں
ہے دوستی کہ پیار ، مجھے کچھ نہیں پتا