ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
اے وقت ذرا تھم جا ، یہ کیسی روانی ہے
آنکھوں میں ابھی باقی اک خوابِ جوانی ہے
کیا قصہ سنائیں ہم اس عمرِ گریزاں کا
فرصت ہے بہت تھوڑی اور لمبی کہانی ہے
اک راز ہے سینے میں ، رکھا نہیں جاتا اب
آکر کبھی سن جاؤ اک بات پرانی ہے
سچے تھے ترے وعدے ، سچے ہیں بہانے بھی
بس ہم کو شکایت کی عادت ہی پرانی ہے
جو کچھ بھی کہا تم نے ، تم کو ہی خبر ہوگی
ہم نے تو سنا جو کچھ دنیا کی زبانی ہے
گزری جو بنا تیرے اُس عمر کا افسانہ
ہونٹوں کی خموشی ہے ، آنکھوں کا یہ پانی ہے
اے یادِ شبِ الفت ! کچھ اور تھپک مجھ کو
پلکوں پر ابھی باقی دن بھرکی گرانی ہے
امید کی خوشبو ہے ، یادوں کے دیئے روشن
ہر وقت تصور میں اک شام سہانی ہے
ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۹۹۹
ٹیگ: فاتح سید عاطف علی محمد تابش صدیقی الف عین
آنکھوں میں ابھی باقی اک خوابِ جوانی ہے
کیا قصہ سنائیں ہم اس عمرِ گریزاں کا
فرصت ہے بہت تھوڑی اور لمبی کہانی ہے
اک راز ہے سینے میں ، رکھا نہیں جاتا اب
آکر کبھی سن جاؤ اک بات پرانی ہے
سچے تھے ترے وعدے ، سچے ہیں بہانے بھی
بس ہم کو شکایت کی عادت ہی پرانی ہے
جو کچھ بھی کہا تم نے ، تم کو ہی خبر ہوگی
ہم نے تو سنا جو کچھ دنیا کی زبانی ہے
گزری جو بنا تیرے اُس عمر کا افسانہ
ہونٹوں کی خموشی ہے ، آنکھوں کا یہ پانی ہے
اے یادِ شبِ الفت ! کچھ اور تھپک مجھ کو
پلکوں پر ابھی باقی دن بھرکی گرانی ہے
امید کی خوشبو ہے ، یادوں کے دیئے روشن
ہر وقت تصور میں اک شام سہانی ہے
ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۹۹۹
ٹیگ: فاتح سید عاطف علی محمد تابش صدیقی الف عین