اے چاند میرے گھر میں کسی شب اتر کے دیکھ

سر الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

کچھ تیرگی ہے اور فضا بھی ہے سوگوار
اے چاند میرے گھر میں کسی شب اتر کے دیکھ

دعوی سخن وری کا میں کرتا نہیں کبھی
لیکن سخن پہ پھر بھی تُو آ بات کر کے دیکھ

پاؤں کے ایک لمس میں ہے کس قدر خمار
مانندِ خاک یار کی رہ میں بکھر کے دیکھ

تجھکو دکھائی دے گی مری ذات آئینہ
تُو میرے سامنے بھی کبھی سج سنور کے دیکھ

کتنا کٹھن سفر ہے تجھے بھی پتا چلے
اک بار راہِ عشق سے تُو بھی گذر کے دیکھ
 
دعوی سخن وری کا میں کرتا نہیں کبھی
لیکن سخن پہ پھر بھی تُو آ بات کر کے دیکھ
دوسرے مصرعے میں پہ پھر کا تنافر اچھا نہیں لگتا ۔۔۔

پاؤں کے ایک لمس میں ہے کس قدر خمار
مانندِ خاک یار کی رہ میں بکھر کے دیکھ
خمار کے بجائے یہاں سرور زیادہ مناسب رہے شاید۔ علاوہ ازیں ’’ایک لمس‘‘ کے بعد ’’ہی‘‘ بھی ضرور آنا چاہیے کیونکہ ایک یہاں مراتِ لمس کی تحدید کے لیے نہیں استعمال ہو رہا۔

مطلع کیوں چھوڑ دیا؟
 
دوسرے مصرعے میں پہ پھر کا تنافر اچھا نہیں لگتا ۔۔۔


خمار کے بجائے یہاں سرور زیادہ مناسب رہے شاید۔ علاوہ ازیں ’’ایک لمس‘‘ کے بعد ’’ہی‘‘ بھی ضرور آنا چاہیے کیونکہ ایک یہاں مراتِ لمس کی تحدید کے لیے نہیں استعمال ہو رہا۔

مطلع کیوں چھوڑ دیا؟

سر کوشش کرتا ہوں
 
دوسرے مصرعے میں پہ پھر کا تنافر اچھا نہیں لگتا ۔۔۔


خمار کے بجائے یہاں سرور زیادہ مناسب رہے شاید۔ علاوہ ازیں ’’ایک لمس‘‘ کے بعد ’’ہی‘‘ بھی ضرور آنا چاہیے کیونکہ ایک یہاں مراتِ لمس کی تحدید کے لیے نہیں استعمال ہو رہا۔

مطلع کیوں چھوڑ دیا؟

دعوی سخن وری کا میں کرتا نہیں کبھی
لیکن سخن پہ کوئی تُو آ بات کر کے دیکھ

کتنا سرور مخفی ہے پاؤں کے لمس میں
مانندِ خاک یار کی رہ میں بکھر کے دیکھ
 
آخری تدوین:
دوسرے مصرعے میں پہ پھر کا تنافر اچھا نہیں لگتا ۔۔۔


خمار کے بجائے یہاں سرور زیادہ مناسب رہے شاید۔ علاوہ ازیں ’’ایک لمس‘‘ کے بعد ’’ہی‘‘ بھی ضرور آنا چاہیے کیونکہ ایک یہاں مراتِ لمس کی تحدید کے لیے نہیں استعمال ہو رہا۔

مطلع کیوں چھوڑ دیا؟

کچھ احترامِ یار میں اے دل ٹھہر کے دیکھ
راہِ وفا میں تُو بھی تو اک بار مر کے دیکھ

مہ رخ کنارے جھیل کے آیا ہے بے حجاب
رقصاں ہر ایک لہر میں جلوے قمر کے دیکھ

سر مطلع ایک اور شعر کی اضافت کے ساتھ
 
دعوی سخن وری کا میں کرتا نہیں کبھی
لیکن سخن پہ کوئی تُو آ بات کر کے دیکھ

کتنا سرور مخفی ہے پاؤں کے لمس میں
مانندِ خاک یار کی رہ میں بکھر کے دیکھ
پاؤں کا یہ تلفظ اتنا اچھا نہیں، پا+اوں کے بجائے مجھے پاں+و زیادہ فصیح لگتا ہے. یہاں اسی وزن میں پیروں لایا جاسکتا ہے.

کچھ احترامِ یار میں اے دل ٹھہر کے دیکھ
راہِ وفا میں تُو بھی تو اک بار مر کے دیکھ

مہ رخ کنارے جھیل کے آیا ہے بے حجاب
رقصاں ہر ایک لہر میں جلوے قمر کے دیکھ
مطلع کا پہلا مصرع کافی جاندار ہے، میرے خیال میں اس پر اس سے بہتر گرہ لگ سکتی ہے. تھوڑی اور فکر کر کے دیکھیں.

دوسرا شعر اچھا ہے.
 
پاؤں کا یہ تلفظ اتنا اچھا نہیں، پا+اوں کے بجائے مجھے پاں+و زیادہ فصیح لگتا ہے. یہاں اسی وزن میں پیروں لایا جاسکتا ہے.
راحل بھائی نے اچھا پکڑا۔ انہی کی تائید میں غالب کے شعر میں پاؤں کا تلفظ دیکھیے۔

دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں
رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پاؤں​
 
پاؤں کا یہ تلفظ اتنا اچھا نہیں، پا+اوں کے بجائے مجھے پاں+و زیادہ فصیح لگتا ہے. یہاں اسی وزن میں پیروں لایا جاسکتا ہے.


مطلع کا پہلا مصرع کافی جاندار ہے، میرے خیال میں اس پر اس سے بہتر گرہ لگ سکتی ہے. تھوڑی اور فکر کر کے دیکھیں.

دوسرا شعر اچھا ہے.
کوشش کرتا ہوں راحل بھائی
 
Top