محمد اظہر نذیر
محفلین
یار سب ہم نوا نہیں ہوتے
بازگشت کی صدا نہیں ہوتے
بولتے سب وفا مگر یارو
بے حیا با وفا نہیں ہوتے
زندگی قرض ہے اگر ہمدم
قرض سارے ادا نہیں ہوتے
جو ملے راستے کی گلیوں میں
وہ سبھی آشنا نہیں ہوتے
سنگ سے تم تراش لیتے ہو
مگر پتھر خدا نہیں ہوتے
چونکتا ہے سبھی آوازوں پر
حرف سارے ندا نہیں ہوتے
گو محبت ہماری کیسی ہو
کیا بھروسہ جدا نہیں ہوتے
یوں میری بات کو مگر اظہر
جس نے سمجھا خفا نہیں ہوتے
بازگشت کی صدا نہیں ہوتے
بولتے سب وفا مگر یارو
بے حیا با وفا نہیں ہوتے
زندگی قرض ہے اگر ہمدم
قرض سارے ادا نہیں ہوتے
جو ملے راستے کی گلیوں میں
وہ سبھی آشنا نہیں ہوتے
سنگ سے تم تراش لیتے ہو
مگر پتھر خدا نہیں ہوتے
چونکتا ہے سبھی آوازوں پر
حرف سارے ندا نہیں ہوتے
گو محبت ہماری کیسی ہو
کیا بھروسہ جدا نہیں ہوتے
یوں میری بات کو مگر اظہر
جس نے سمجھا خفا نہیں ہوتے