شباب کے سن کر فسانے ترے
چلے آئے ملنے دوانے ترے
شبِ وصل ہیں یاد اب بھی ہمیں
وہ حیلے ترے، وہ بہانے ترے
رہے درد کے جام چھلکاتے سے
نگاہوں کے بے خود مے خانے ترے
وہ زرائے ایماں بھی جاتا رہا
گئے جو کبھی آستانے ترے
تجھے اے جنوں! بھائے صحرا ، یا پھر
سرئے دار ہوئے ٹھکانے ترے
نا فرع بھائی اچھی غزل ہے ۔۔۔!
استاذ گرامی کی اصلاح سے پہلے ذرا خود ہی نظرِ ثانی کر لیجئے۔۔۔!
نشان زد کردیا ہے۔۔۔!
شباب کے سن کر فسانے ترے ( یہ وزن میں نہیں آ رہا ہے ۔۔ یہاں
جوانی لگا دیں تو وزن میں آجاتا ہے۔۔۔)
چلے آئے ملنے
دوانے ترے ( میرے خیال میں دیوانے کو دوانے تقطیع کرنا غلط ہے ۔۔! )
رہے درد کے جام چھلکاتے
سے ( سے مناسب معلوم نہیں ہو رہا )
نگاہوں کے بے خود
مے خانے ترے ( مے بوزن فع ہے اس کی ے گرانا اچھا نہیں لگتا۔۔۔)
وہ
زرائے ایماں بھی جاتا رہا ( زرائے ایماں ۔۔ میں نے یہ لفظ آج تک نہیں سنا۔۔۔!)
گئے جو کبھی آستانے ترے
تجھے اے جنوں! بھائے صحرا ، یا پھر
سرئے دار
ہوئے ٹھکانے ترے
سرئے کیا لفظ ہے؟ ۔۔۔
ہوئے ۔۔ مفا کے وز ن پر ہوتا ہے۔۔۔