طارق شاہ
محفلین
غزل
اب تو ایسی کوئی گھڑی آئے!
حُسن کو خود سُپردگی آئے
اب ہَمَیں دے گی کیامزہ یہ شراب
ہم تو آنکھوں سے اُس کی، پی آئے
دُشمنوں سے بھی راہ و رسم بڑھیں
دوستوں میں جو کچھ کمی آئے
دِل کے آنگن میں کُچھ اندھیرا ہے
کسی مُکھڑے کی روشنی آئے
اِس طرح آرہا ہے دِل کا مکیں
جِس طرح، کوئی اجنبی آئے
کام تو ہم سے ہو سکا نہ کوئی
کرکے باتیں بڑی بڑی آئے
اُس کی محِفل میں بیٹھنے سے ہَمَیں
کُچھ تو آدابِ بندگی آئے
اپنی سب ہی سے ہے سلام و دُعا
رِند آئے، کہ مولوی آئے
اور سب ہو مگر خُدا نہ کرے!
نیکی بن کر ، کوئی بَدی آئے
حُسن والے مکیں ہُوں جب دِل میں!
کِس طرح پاک دامَنی آئے
اپنے قصّے ڈھکے چُھپے تو نہیں
جو بھی آئے ہنسی خوشی آئے
جب خموشی زبان بنتی ہے
ایسی چُپ تو گھڑی گھڑی آئے
زندگی تو، نصِیب ہی میں نہ تھی
ہاں، مگر عُمر ساری جی آئے
کاش! اِن حُسن کے خُداؤں کو
تھوڑی سی، بندہ پروری آئے
حُسن والوں کی بِھیڑ ہے بیکار
کوئی ایسا ہو، جس پہ جی آئے
غالؔب و مِیؔر بن رہے ہیں لوگ
شعر سمجھیں، نہ شاعری آئے
جب حَسِیں ہوں کنارہ کش باؔقر
پِھر تو اچھّا ہے ، موت ہی آئے
باقؔر زیدی