طارق شاہ
محفلین
غزل
حمد ہے ، شُکر ہے، ثنا ہے غزل
عِشق کو حُسن کی عطا ہے غزل
خوش عقِیدہ ہے خوش نَوا ہے غزل
فکر و احساس کی ضِیا ہے غزل
نعت کے شعر خُوب لکھتی ہے
واقفِ حقِ مُصطفٰی ؐہے غزل
مدحِ مولا علیؑ کے بارے میں
غاؔلب و ؔمیر کی نَوا ہے غزل
کہیں حُبِّ علیؑ غزل کا مزاج
کہیں بغضِ مُعاویہ ہے غزل
ہے تغزّل بھی کچھ سلاموں میں
ہم سُخن تا بہ کربلا ہے غزل
چند حرفوں میں کائنات لیے
خوش بیانی کا معجزہ ہے غزل
ہے عزائے حُسیؑن میں بھی شرِیک
اِستعاروں میں کربلا ہے غزل
عِشق کی ترجمان ہے تو یہ ہے
حُسن کی محرمِ ادا ہے غزل
دِل کی دِلدار، عِشق کی ہے پُکار
حرفِ گفتار ہے، نَوا ہے غزل
سارے آدابِ عِشق ہیں معلوم
عرضِ آداب میں بَلا ہے غزل
سارے اندازِ حُسن جانتی ہے
عِشق کی ترجماں بجا ہے غزل
ہر زمانے کا عکس ہے اِس میں
قلبِ تاریخ کی صدا ہے غزل
گوشِ دِل میں جگہ بناتی ہے
باؔقرِ خستہ کی نَوا ہے غزل
شاعری! تیری زندگی کے لیے !
مستجاب ایک ہی دُعا ہے غزل
یہ ، جو باؔقر نے آج لکھّی ہے !
اِنتہاؤں کی اِبتدا ہے غزل
باؔقر زیدی
(نگارخانۂ غزل)