طارق شاہ
محفلین
غزل
کُچھ نئے حرف لِکھوں، کوئی نئی بات کروں
کُچھ تو ہو پاس مِرے جس سے مباہات کروں
اجنبیّت! تِرے ماحول میں دَم گُھٹتا ہے
کوئی ایسا بھی مِلے، جس سے کوئی بات کروں
کُچھ تو مجھ سے بھی مِلے میرے تمدّن کا سُراغ
ترک مَیں کیوں روِشِ پاسِ روایات کروں
گردِشِ وقت، کہ پُوچھے ہے زمانے کا مزاج!
سامنے آئے ذرا، مَیں بھی تو دو بات کروں
نہ کسی زُلف کا سایا، نہ کسی جِسم کی دُھوپ
زندگی کِس کے سہارے بَسر اوقات کروں
چِھین لیتا ہے مسیحا سے شفا کی طاقت
کیا دُعاؤں سے مِلے گا ، کہ مناجات کروں
بازوؤں میں نہیں طاقت، کہ اُٹھاؤں کوئی بوجھ
اور یہ عزم، کہ تبدیلیِ حالات کروں
جھانک کر اپنے گریباں میں تو دیکھوں نہ کبھی
ساری دُنیا سے، زمانے کی شکایات کروں
آپ ہی آپ ، بدلتے ہیں یہ منظر سارے
رات کو دِن کروں، نہ دِن کو کبھی رات کروں
ایک دِل کم ہے محبّت کی تواضع کے لئے
کِس طراح اِتنے حَسِینوں کی مدارات کروں
دَم ہے ہونٹوں پہ، تو سب آئے ہیں مِلنے کے لئے
آخری وقت ہے، کِس کِس سے مُلاقات کروں
اُس سے اِک بات بھی کہتے نہیں بنتی باؔقر !
جس سے چاہے ہے بہت جی، کہ ہر اِک بات کروں
باؔقر زیدی