سید عمران
محفلین
نام و نسب
بابائے لاہور حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت افغانستان کے معروف شہر غزنی میں۴۰۰ھ کو ہوئی۔آپ نیک سیرت اور شرافت کے پیکرسادات خاندان کے چشم وچراغ تھے۔آپ کا اسم مبارک علی، کنیت ابُوالحسن اور لقب داتا گنج بخش ہے۔ آپ کی ولادت آپ کے ننھیال غزنی کے ایک گاؤں ہجویر میں ہوئی، آپ کے والد ماجد جلاب کے اور والدہ ماجدہ ہجویر کی رہنے والی تھیں، والد صاحب کی وفات کے بعد آپ مستقل طورپر ننھیال منتقل ہو گئے، اس لیے آپ خود کو جلابی ثم الہجویری لکھتے ہیں ۔آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ کے والد حضرت سید عثمان رحمۃ اللہ علیہ جید عالم، عظیم فقیہ اور بہت بڑے عابد و زاہد تھے۔ آپ کی والدہ بھی بہت عابدہ، زاہدہ اور پارسا خاتون تھیں۔ آپ کے ماموں زہد و تقویٰ اور علم وفضل کی وجہ سے ’’تاج العلماء‘‘ کے لقب سے مشہور تھے۔آج بھی آپ کے ماموں کا مزار غزنی میں موجود ہے۔ غرض آپ کا گھر علم و فضل اور روحانیت کا گہوارہ تھا۔ یہ سلطان محمود غزنوی کا دور تھا جو علم دوست بادشاہ تھے لہٰذا غزنی شہر بھی علوم و معارف کا مرکز تھا۔ شہر میں علماء اور مدارس بکثرت تھے،خود سلطان محمود غزنوی نے غزنی شہر میں ایک عظیم الشان مدرسہ اور مسجد تعمیر کروائی تھی۔
ابتدائی تعلیم
علم و کمال کے اسی دور میں آپ کے والدین اور ماموں نے آپ کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دی۔ چار سال کی عمر میں آپ نے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی، آپ غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے لہٰذا تھوڑے ہی عرصہ میں قرآن مجید مکمل پڑھنے کی سعادت حاصل کرلی۔اس کے بعد آپ نے عربی، فارسی اور دیگر دینی علوم کے حصول کے لیے سفر کی صعوبتیں خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔
آپ نے تمام مروجہ علوم معقول و منقول میں کمال حاصل کیا۔ وعظ و ارشاد، درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے علاوہ مناظرہ میں آپ کو یدطولیٰ حاصل تھا۔ آپ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد تھے۔کشف المحجوب میں آپ نے امام اعظم ابو حنیفہ کا شمار اجل صوفیا میں بھی کیا ہے اور آپ کو امام الائمہ، شرف فقہاء اور دیگر عظیم الشان القابات دے کر بڑے ادب سے تذکرہ کیا ہے۔
اساتذۂ کرام
طریقت میں آپ کے شیخ ابو الفضل محمد بن حسن ختلی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ ان کے حالات قلمبند کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے وضو کرانے کے لیے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈالا تو دل میں خیال آیا کہ آخر میں ان کی غلامی کیوں کروں؟ کیوں کہ جو قسمت میں لکھا ہے وہ تو ضرور مل کررہے گا۔ اسی وقت شیخ نے فرمایا کہ بیٹا جو خیال تیرے دل میں پیدا ہوا ہے میں اسے جانتا ہوں، ہر کام کا ایک سبب اور ذریعہ ہوتا ہے، اپنے بڑوں کی یہ خدمت آدمی کی بزرگی کا سبب بن جاتی ہے۔
حضرت علی ہجویری فرماتے ہیں کہ جس روز میرے مرشد شیخ ابو الفضل کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ بانیار اور دمشق کے درمیان پہاڑ پرواقع ایک گاؤں بیت الجن میں تھے، اور آپ کا سر میری گود میں تھا، میرا دل سخت مضطرب اور تکلیف میں تھا، جیسے کہ ایسے محسن اور دوست کی علیحدگی کے خیال سے ہونا ہی چاہیے تھا۔ آپ نے فرمایا کہ بیٹا میں اعتقاد کا مسئلہ بیان کرتا ہوں، اگر تو اپنے آپ کواس کے مطابق درست کر لے گا تو تیرے دل کی یہ تمام تکلیف دور ہو جائے گی۔ یہ بات یاد رکھ کہ اللہ عز و جل کوئی کام الل ٹپ نہیں کرتے، وہ تمام حالات کو ان کے نیک وبد کا لحاظ رکھ کر پیدا فرماتے ہیں۔ تیرے لیے لازم ہے کہ خدا کے فعل میں اس سے جھگڑا نہ کر اور جو کچھ وہ کرتا ہے اس پر رنجیدہ نہ ہو۔ آپ نے ابھی اتنی بات فرمائی تھی کہ اپنی جان خداوند کریم کے سپرد کر دی۔
آپ اپنے ایک استاد ابو سعید فضل اللہ بن محمد مہینی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ شیخ ابو مسلم فارسی نے مجھے بتایا کہ میری گدڑی بہت میلی تھی، جب میں حضرت ابو سعید کے پاس پہنچا تو آپ بہت شاہانہ لباس میں تخت پر براجمان تھے اور اوپر مصری دیبا کی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ میں نے یہ دیکھ کر دل میں خیال کیا کہ اس ٹھاٹھ کے ساتھ فقر کا دعویٰ ؟ مجھے دیکھو کہ گدڑی میں فقر کا دعویٰ کرتا ہوں۔ میرے کوئی بات زبان پر لائے بغیر آپ نے فرمایا کہ تم نے یہ باتیں کس دیوان میں لکھی پائی ہیں؟ میں اس پر اپنے دل میں بہت شرمندہ ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ اَلَتّصَوَّفُ قَیَامُ القَلبِ مَعَ اللہِ تصوف تو اللہ سے دل لگانے کا نام ہے۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابو سعید نیشا پور سے طوس جارہے تھے۔ راستے میں برفانی گھاٹی پڑتی تھی۔ آپ اپنے پاؤں میں سردی محسوس کر رہے تھے۔ آپ کے ساتھ جو درویش تھا وہ بیان کرتا ہے کہ میرے دل میں خیال آیا کہ اپنے رومال کے دو ٹکڑے کر کے آپ کے پاؤں پر لپیٹ دوں، لیکن پھر خیال آیا کہ میرا رومال بہت اچھا ہے اسے ضائع کیوں کروں۔ طوس پہنچ کر ہم مجلس میں بیٹھے تھے کہ میں نے آپ سے سوال کیا کہ اے شیخ حقّانی! الہام اور وسوسہ میں کیا فرق ہے؟ آپ نے فرمایا کہ الہام تو وہ ہے جس نے تیرے دل میں یہ خیال پیدا کیا کہ اپنا رومال ابو سعید کے پاؤں کے گرد لپیٹ دو تاکہ اس کے پاؤں کو سردی نہ لگے اور شیطانی وسوسہ وہ تھا کہ جس نے تجھے ایسا کرنے سے روکا۔
تعلیم طریقت
کسب روحانی کے لیے حضرت علی ہجویری نے شام، عراق، فارس، آزربائیجان، طبرستان، کرمان، خراسان، ماوراء النہر اور ترکستان وغیرہ کا سفر کیا۔ ان ممالک میں بے شمار لوگوں سے ملے اور ان کی صحبتوں سے فیض حاصل کیا۔ صرف خراسان میں جن مشایخ سے آپ ملے ان کی تعداد تین سو ہے۔ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں نے خراسان میں تین سو اشخاص ایسے دیکھے ہیں کہ ان میں سے صرف ایک سارے جہان کے لیے کافی ہے۔
ایک سبق آموز واقعہ
حضرت علی ہجویری اپنی تلاش و جستجو کے زمانے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ایک مشکل پیش آئی۔ اس کے حل کے لیے میں نے بہت مجاہدے کیے مگر یہ مشکل حل نہ ہوئی بالآخر میں نے خراسان جانے کا ارادہ کیا، راستے میں رات کے وقت ایک خانقاہ میں رات بسر کرنے کے لیے ٹھہرا، وہاں صوفیوں کی ایک جماعت بھی تھی، میرے پاس اس وقت موٹے کُھردرے ٹاٹ کی ایک گُدڑی تھی جو میں نے پہن رکھی تھی، ہاتھ میں ایک عصا اور کوزہ (لوٹا) تھا، اس کے سوا اور کوئی سامان میرے پاس نہیں تھا۔ ان صوفیوں نے مجھے بہت حقارت کی نظر سے دیکھا اور خاص انداز میں ایک دوسرے سے کہا کہ یہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اور وہ اپنی اس بات میں سچے تھے، کیونکہ میں فی الواقع ان میں سے نہ تھا، میں تو محض ایک مسافر کی حیثیت سے رات بسر کرنے کے لیے ان کے پاس پہنچ گیا تھا، ورنہ ان کے طور طریقوں سے میرا کوئی سروکار نہ تھا۔ انہوں نے خانقاہ کے نیچے کے ایک کمرہ میں مجھے بٹھا دیا اور ایک سُوکھی روٹی میرے آگے رکھ کر خود کھانے کے لیے اوپر چوبارے میں جا بیٹھے۔ جو کھانے وہ خود کھا رہے تھے ان کی خوشبو مجھے آ رہی تھی، وہ چوبارہ پر سے طنزیہ انداز میں مجھ سے باتیں کرتے تھے۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو خربوزے لے کر بیٹھ گئے اور چھلکے مجھ پر پھینکتے رہے،ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی طبیعت کی خوشی اس وقت میری توہین پر موقوف تھی۔ میں اپنے دل میں خدا سے کہہ رہا تھاکہ اے خدا، اگر میں نے تیرے دوستوں کا لباس نہ پہنا ہوا ہوتا تو میں ضرور ان حرکات کا مزا ان کو چکھادیتا۔ چونکہ میں اسے خداوند تعالیٰ کی طرف سے ابتلا سمجھ کر برداشت کر رہا تھا اس لیے جس قدر وہ طعن و ملامت مجھ پر زیادہ کرتے تھے میں خوش ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ اس طعن کا بوجھ اٹھانے سے میری وہ مشکل جس کے لیے میں مجاہدوں اور اس سفر کی مشقت اٹھا رہا تھا وہیں حل ہو گئی۔ اور اسی وقت مجھ کو معلوم ہو گیا کہ مشایخ جاہلوں کو اپنے درمیان کیوں رہنے دیتے ہیں اور ان کا بوجھ کس لیے اٹھاتے ہیں۔ نیز یہ کہ بعض بزرگوں نے ملامت کا طریقہ کیوں اختیار کیا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ایسے غیر اختیاری مجاہدات سے بعض اوقات وہ عقدے حل ہو جاتے ہیں جو دوسرے طریقوں سے حل نہیں ہوتے۔
آپ کا طریق
آپ کے نزدیک صوفی صفا سے ہے اور صفا کی اصل دل کو غیر اللہ سے منقطع اور دنیا سے خالی کرکے اللہ سے جوڑنا ہے نہ کہ کوئی خاص وضع قطع اختیار کرنا۔ آپ فرماتے ہیں کہ سالک کو تمام احوال میں علمِ شریعت کا پیرو کار ہونا چاہیے۔ چنانچہ آپ چالیس برس مسلسل سفر میں رہے لیکن کبھی نماز باجماعت ناغہ نہیں کی اور ہر جمعہ کی نماز کے لیے کسی نہ کسی قصبہ میں قیام فرمایا۔ آپ اپنا رہن سہن عام لوگوں کی طرح رکھتے تھے، صوفیوں کی ظاہری رسوم اور وضع قطع سے اپنے شیخ ابوالفضل محمد بن ختلی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ہمیشہ مجتنب رہے۔
لاہور میں آمد اور قیام
آپ غزنی میں لوگوں کی تعلیم و تربیت اور عبادت و ریاضت میں مشغول تھے کہ خواب میں پیر و مرشد حضرت شیخ ختلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اے فرزند تمہیں لاہور کی قطبیت پر مامور کیا جاتا ہے، اٹھو اور لاہور جاؤ۔ اس وقت وہاں آپ کے پیر بھائی حسین زنجانی اس خدمت پر مامور تھے۔ اس لیے آپ نے اپنے شیخ سے عرض کیا کہ وہاں حسین زنجانی موجود ہیں، میری کیا ضرورت ہے؟ارشاد ہوا کہ ہم سے حکمت دریافت نہ کرو اور بلاتوقف لاہور روانہ ہوجاؤ۔
آپ بحکم مرشد ۴۳۱ھ میں لاہور تشریف لائے، اس وقت لاہور کا نام لہانور تھا۔ یہ سلطان محمود غزنوی کے بیٹے سلطان مسعود غزنوی کا دور تھا۔ پنجاب اگرچہ غزنی حکومت کا حصہ تھا لیکن لاہور اس وقت ہندو تہذیب کے زیر اثر تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں طویل سفر کے بعد جب لاہور پہنچا تو رات کا وقت تھا اور لاہور کے دروازے بند ہوچکے تھے۔جب صبح ہوئی تو شہر کی جانب روانہ ہوئے، چند قدم ہی چلے تھے کہ سامنے سے ایک بڑا ہجوم آتا نظر آیا،معلوم ہوا کہ حضرت شیخ میراں حسین زنجانی کاجنازہ ہے۔ بے اختیار زبان مبارک سے نکلا اللہ شیخ کو جزائے خیر دے ،وہ واقعی روشن ضمیر تھے۔ لوگوں نے یہ جملہ سنا تو استفسار کیا،آپ نے انہیں پورا واقعہ سنا دیا۔جب لوگوں کو پتا چلا کہ آپ حضرت شیخ حسین زنجانی کے پیر بھائی ہیں تو انہوں نے جنازہ پڑھانے پر اصرار کیا۔ یوں آپ نے پہلے جنازہ پڑھایا اور پھر تدفین کے عمل سے فارغ ہوکر شہر کی جانب روانہ ہوئے اور لاہور میں مستقل سکونت اختیار فرمائی۔اس وقت لاہور میں مسلمانوں کو حکومت حاصل کیے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا،لہٰذا ہر طرف ہندومذہب کے پیرو کاروں اور پیشواؤں کا دور دورہ تھا،مگر آپ کی شفقت ومحبت سے بھرپور شخصیت بے شمار لوگوں کو کفر و شرک کی دلدل سے نکال کر صراطِ مستقیم کی جانب گامزن کرنے کا باعث بنی۔ لاہور میں سکونت اختیار کرنے کے بعد تبلیغ و اشاعت دین کے سلسلے میں آپ نے برصغیر ہند کے کئی علاقوں کا سفر بھی کیا۔
جہاں آج آپ کا مزار اقدس ہے اس وقت یہ جگہ دریائے راوی کے کنارے تھی، آپ اس جگہ قیام پذیر ہوئے اور سادہ سی مسجد و مدرسہ پر مشتمل خانقاہ کی بنیاد رکھی۔آپ نے مسجد کا رخ بالکل مغرب کی بجائے مائل بجنوب رکھا تو لاہور کے علماء معترض ہوئے۔ آپ نے ان کو مدعو فرمایا اور کہا کہ ایک ساعت کے لیے آنکھیں بند کریں، پھر آپ نے ایسی توجہ فرمائی کہ سامنے سے سب حجابات اٹھ گئے، سب نے دیکھا کہ خانہ کعبہ سامنے ہے اور مسجد بالکل صحیح رُخ پر ہے۔
ازدواجی زندگی
آپ کی ازدواجی زندگی کے بارے میں دو مختلف روایات ملتی ہیں پہلی یہ کہ کہ آپ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے مگر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد بیوی سے علیحدگی ہوگئی پھر تاحیات دوسری شادی نہ کی۔دوسری یہ کہ آپ کی دو شادیاں والدین نے کی تھیں، پہلی بیوی کی وفات کے بعد گیارہ سال تک رشتۂ ازدواج سے منسلک نہ رہے پھر دوسری شادی کی مگر ایک سال بعد یہ بیوی بھی فوت ہو گئیں۔
آپ کی تصانیف
آپ نے متعدد موضوعات پر تصانیف لکھیں لیکن ان میں سے کشف المحجوب کے سوا کوئی کتاب نہیں ملتی۔ آپ کو شعر وشاعری سے بھی دلچسپی تھی اور آپ کا دیوان بھی تھا۔ آ پ کے بیان کے مطابق آپ کی بہت سے تصانیف لوگوں نے مستعار لیں اور نام بدل کر اپنے نام سے شائع کرادیں۔ کشف المحجوب میں اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے لکھا ہے کہ بعض لوگ دوسروں کی تصانیف کو اپنے نام سے منسوب کرکے شائع کر دیتے ہیں، چنانچہ ایک شخص نے مجھ سے میرے شعروں کا دیوان دیکھنے کے لیے مانگا اور پھر واپس نہیں کیا اور اس سے میرانام مٹا کر کے اپنے نام سے پیش کر دیا، چونکہ دیوان کا یہی ایک نسخہ تھا جو وہ لے گیا، اس لیے میں کچھ نہ کر سکا اور اس نے میری محنت کو برباد کر دیا۔اسی طرح ایک اور شخص نے میری دوسری کتاب منہاج الدین جو میں نے تصوف پر تصنیف کی تھی مجھ سے مانگی اور اس پر سے میرا نام مٹا کر عوام الناس میں اسے اپنے نام سے شائع کر دی۔
آپ نے متعدد کتب تصنیف فرمائیں لیکن ’’ کشف المحجوب‘‘ کو بڑی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ کتاب فارسی زبان میں تصوف پر پہلی تصنیف ہے۔ یہ کتاب شریعت اور سلوک کے طالب علم کے لیے مرشد کا درجہ رکھتی ہے۔ کشف المحجوب کے بارے میں خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کا کوئی مرشد نہ ہو اُسے اِس کتاب کے مطالعہ کی برکت سے مرشد مل جائے گا۔کشف المحجوب میں آپ نے اپنی جن دوسری تصانیف کا تذکرہ کیا ہے وہ یہ ہیں:
منہاج الدین (یہ کتاب اصحابِ صفہ کے مناقب پر تھی)، الرعایتہ لحقوق اللہ، کتاب الفنا والبقا، اسرار الخلق المؤنات، بحرالقلوب ، کتاب البیان لاہل العیان، رسالہ در شرحِ کلامِ منصور الحلاج
ان کے علاوہ چند اوراق کا چھوٹا سا رسالہ ”کشف الاسرار“ بھی آپ کی قابل ِقدر تحریر ہے اور شائع ہو چکا ہے ۔شاعر مشرق علامہ اقبال آپ کے بارے میں کہتے ہیں ؎
سید ہجویر مخدوم اُمم
مرقد اُو پیر سنجر را حرم
خاک پنجاب از دم اُو زندہ گشت
صبح ما از مہر اُو تابندہ گشت
ہجویر کے سردار اُمتوں کے مخدوم ہیں
آپ کے مزار کو حضرت معین الدین چشتی نے حرم بنایا
آپ کی برکت سے پنجاب کی بنجر زمین زندہ و زرخیز ہو گئی
اور میری صبح بھی آپ کے سورج کی وجہ سے روشن ہو گئی
وصال
آپ کے وصال کے بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ علامہ غلام سرور لاہوری رحمۃ اللہ علیہ خزینۃ الاولیاء میں آپ کا تاریخ وصال ۴۶۴ھ یا ۴۶۶ ھ تحریر فرماتے ہیں۔
قبر مبارک
آپ کا مزار لاہور کے شاہی قلعہ کی مغربی سمت میں واقع ہے ۔آپ کا مزار سب سے پہلے غزنوی حکمران سلطان ابراہیم بن سلطان مسعود غزنوی نے بنوایا جبکہ خانقاہ کا فرش اور ڈیوڑھی جلال الدین اکبر بادشاہ کی تعمیر کردہ ہیں۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاًاس کی تعمیر و مرمت جاری رہی ۔اس وقت مزار اور مسجد میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔
خواجہ معین الدین اجمیری اور بابا فرید الدین گنج شکر نے کسب فیض کے لیے آپ کے مزار پر چلہ کشی کی۔ خواجہ معین الدین اجمیری نے چلہ پورا ہونے پر بوقت رخصت یہ شعر پڑھا ؎
گنج بخش فیضِ عالم مظہر نورِ خُدا
ناقصاں را پیرِ کامل، کاملاں را رہنما
اس کے بعد سے آپ کی شہرت گنج بخش کے نام سے ہوگئی۔داتا فارسی زبان میں سخی کو کہتے ہیں اور گنج بخش کے معنی بھی اس کے قریب ہی ہیں یعنی خزانہ دینے والا لہٰذا سخی کا لفظ ایک عام آدمی پر اطلاق کرنے میں بھی کوئی شرعی و عقلی قباحت نہیں چہ جائے کہ ایسی ہستی پر بولا جائے جس نے ساری زندگی قرآن وسنت کی تعلیمات اور علوم ومعارف کے خزانے مخلوق خدا میں تقسیم کیے۔
بابائے لاہور حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت افغانستان کے معروف شہر غزنی میں۴۰۰ھ کو ہوئی۔آپ نیک سیرت اور شرافت کے پیکرسادات خاندان کے چشم وچراغ تھے۔آپ کا اسم مبارک علی، کنیت ابُوالحسن اور لقب داتا گنج بخش ہے۔ آپ کی ولادت آپ کے ننھیال غزنی کے ایک گاؤں ہجویر میں ہوئی، آپ کے والد ماجد جلاب کے اور والدہ ماجدہ ہجویر کی رہنے والی تھیں، والد صاحب کی وفات کے بعد آپ مستقل طورپر ننھیال منتقل ہو گئے، اس لیے آپ خود کو جلابی ثم الہجویری لکھتے ہیں ۔آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ کے والد حضرت سید عثمان رحمۃ اللہ علیہ جید عالم، عظیم فقیہ اور بہت بڑے عابد و زاہد تھے۔ آپ کی والدہ بھی بہت عابدہ، زاہدہ اور پارسا خاتون تھیں۔ آپ کے ماموں زہد و تقویٰ اور علم وفضل کی وجہ سے ’’تاج العلماء‘‘ کے لقب سے مشہور تھے۔آج بھی آپ کے ماموں کا مزار غزنی میں موجود ہے۔ غرض آپ کا گھر علم و فضل اور روحانیت کا گہوارہ تھا۔ یہ سلطان محمود غزنوی کا دور تھا جو علم دوست بادشاہ تھے لہٰذا غزنی شہر بھی علوم و معارف کا مرکز تھا۔ شہر میں علماء اور مدارس بکثرت تھے،خود سلطان محمود غزنوی نے غزنی شہر میں ایک عظیم الشان مدرسہ اور مسجد تعمیر کروائی تھی۔
ابتدائی تعلیم
علم و کمال کے اسی دور میں آپ کے والدین اور ماموں نے آپ کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دی۔ چار سال کی عمر میں آپ نے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی، آپ غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے لہٰذا تھوڑے ہی عرصہ میں قرآن مجید مکمل پڑھنے کی سعادت حاصل کرلی۔اس کے بعد آپ نے عربی، فارسی اور دیگر دینی علوم کے حصول کے لیے سفر کی صعوبتیں خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔
آپ نے تمام مروجہ علوم معقول و منقول میں کمال حاصل کیا۔ وعظ و ارشاد، درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے علاوہ مناظرہ میں آپ کو یدطولیٰ حاصل تھا۔ آپ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد تھے۔کشف المحجوب میں آپ نے امام اعظم ابو حنیفہ کا شمار اجل صوفیا میں بھی کیا ہے اور آپ کو امام الائمہ، شرف فقہاء اور دیگر عظیم الشان القابات دے کر بڑے ادب سے تذکرہ کیا ہے۔
اساتذۂ کرام
طریقت میں آپ کے شیخ ابو الفضل محمد بن حسن ختلی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ ان کے حالات قلمبند کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے وضو کرانے کے لیے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈالا تو دل میں خیال آیا کہ آخر میں ان کی غلامی کیوں کروں؟ کیوں کہ جو قسمت میں لکھا ہے وہ تو ضرور مل کررہے گا۔ اسی وقت شیخ نے فرمایا کہ بیٹا جو خیال تیرے دل میں پیدا ہوا ہے میں اسے جانتا ہوں، ہر کام کا ایک سبب اور ذریعہ ہوتا ہے، اپنے بڑوں کی یہ خدمت آدمی کی بزرگی کا سبب بن جاتی ہے۔
حضرت علی ہجویری فرماتے ہیں کہ جس روز میرے مرشد شیخ ابو الفضل کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ بانیار اور دمشق کے درمیان پہاڑ پرواقع ایک گاؤں بیت الجن میں تھے، اور آپ کا سر میری گود میں تھا، میرا دل سخت مضطرب اور تکلیف میں تھا، جیسے کہ ایسے محسن اور دوست کی علیحدگی کے خیال سے ہونا ہی چاہیے تھا۔ آپ نے فرمایا کہ بیٹا میں اعتقاد کا مسئلہ بیان کرتا ہوں، اگر تو اپنے آپ کواس کے مطابق درست کر لے گا تو تیرے دل کی یہ تمام تکلیف دور ہو جائے گی۔ یہ بات یاد رکھ کہ اللہ عز و جل کوئی کام الل ٹپ نہیں کرتے، وہ تمام حالات کو ان کے نیک وبد کا لحاظ رکھ کر پیدا فرماتے ہیں۔ تیرے لیے لازم ہے کہ خدا کے فعل میں اس سے جھگڑا نہ کر اور جو کچھ وہ کرتا ہے اس پر رنجیدہ نہ ہو۔ آپ نے ابھی اتنی بات فرمائی تھی کہ اپنی جان خداوند کریم کے سپرد کر دی۔
آپ اپنے ایک استاد ابو سعید فضل اللہ بن محمد مہینی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ شیخ ابو مسلم فارسی نے مجھے بتایا کہ میری گدڑی بہت میلی تھی، جب میں حضرت ابو سعید کے پاس پہنچا تو آپ بہت شاہانہ لباس میں تخت پر براجمان تھے اور اوپر مصری دیبا کی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ میں نے یہ دیکھ کر دل میں خیال کیا کہ اس ٹھاٹھ کے ساتھ فقر کا دعویٰ ؟ مجھے دیکھو کہ گدڑی میں فقر کا دعویٰ کرتا ہوں۔ میرے کوئی بات زبان پر لائے بغیر آپ نے فرمایا کہ تم نے یہ باتیں کس دیوان میں لکھی پائی ہیں؟ میں اس پر اپنے دل میں بہت شرمندہ ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ اَلَتّصَوَّفُ قَیَامُ القَلبِ مَعَ اللہِ تصوف تو اللہ سے دل لگانے کا نام ہے۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابو سعید نیشا پور سے طوس جارہے تھے۔ راستے میں برفانی گھاٹی پڑتی تھی۔ آپ اپنے پاؤں میں سردی محسوس کر رہے تھے۔ آپ کے ساتھ جو درویش تھا وہ بیان کرتا ہے کہ میرے دل میں خیال آیا کہ اپنے رومال کے دو ٹکڑے کر کے آپ کے پاؤں پر لپیٹ دوں، لیکن پھر خیال آیا کہ میرا رومال بہت اچھا ہے اسے ضائع کیوں کروں۔ طوس پہنچ کر ہم مجلس میں بیٹھے تھے کہ میں نے آپ سے سوال کیا کہ اے شیخ حقّانی! الہام اور وسوسہ میں کیا فرق ہے؟ آپ نے فرمایا کہ الہام تو وہ ہے جس نے تیرے دل میں یہ خیال پیدا کیا کہ اپنا رومال ابو سعید کے پاؤں کے گرد لپیٹ دو تاکہ اس کے پاؤں کو سردی نہ لگے اور شیطانی وسوسہ وہ تھا کہ جس نے تجھے ایسا کرنے سے روکا۔
تعلیم طریقت
کسب روحانی کے لیے حضرت علی ہجویری نے شام، عراق، فارس، آزربائیجان، طبرستان، کرمان، خراسان، ماوراء النہر اور ترکستان وغیرہ کا سفر کیا۔ ان ممالک میں بے شمار لوگوں سے ملے اور ان کی صحبتوں سے فیض حاصل کیا۔ صرف خراسان میں جن مشایخ سے آپ ملے ان کی تعداد تین سو ہے۔ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں نے خراسان میں تین سو اشخاص ایسے دیکھے ہیں کہ ان میں سے صرف ایک سارے جہان کے لیے کافی ہے۔
ایک سبق آموز واقعہ
حضرت علی ہجویری اپنی تلاش و جستجو کے زمانے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ایک مشکل پیش آئی۔ اس کے حل کے لیے میں نے بہت مجاہدے کیے مگر یہ مشکل حل نہ ہوئی بالآخر میں نے خراسان جانے کا ارادہ کیا، راستے میں رات کے وقت ایک خانقاہ میں رات بسر کرنے کے لیے ٹھہرا، وہاں صوفیوں کی ایک جماعت بھی تھی، میرے پاس اس وقت موٹے کُھردرے ٹاٹ کی ایک گُدڑی تھی جو میں نے پہن رکھی تھی، ہاتھ میں ایک عصا اور کوزہ (لوٹا) تھا، اس کے سوا اور کوئی سامان میرے پاس نہیں تھا۔ ان صوفیوں نے مجھے بہت حقارت کی نظر سے دیکھا اور خاص انداز میں ایک دوسرے سے کہا کہ یہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اور وہ اپنی اس بات میں سچے تھے، کیونکہ میں فی الواقع ان میں سے نہ تھا، میں تو محض ایک مسافر کی حیثیت سے رات بسر کرنے کے لیے ان کے پاس پہنچ گیا تھا، ورنہ ان کے طور طریقوں سے میرا کوئی سروکار نہ تھا۔ انہوں نے خانقاہ کے نیچے کے ایک کمرہ میں مجھے بٹھا دیا اور ایک سُوکھی روٹی میرے آگے رکھ کر خود کھانے کے لیے اوپر چوبارے میں جا بیٹھے۔ جو کھانے وہ خود کھا رہے تھے ان کی خوشبو مجھے آ رہی تھی، وہ چوبارہ پر سے طنزیہ انداز میں مجھ سے باتیں کرتے تھے۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو خربوزے لے کر بیٹھ گئے اور چھلکے مجھ پر پھینکتے رہے،ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی طبیعت کی خوشی اس وقت میری توہین پر موقوف تھی۔ میں اپنے دل میں خدا سے کہہ رہا تھاکہ اے خدا، اگر میں نے تیرے دوستوں کا لباس نہ پہنا ہوا ہوتا تو میں ضرور ان حرکات کا مزا ان کو چکھادیتا۔ چونکہ میں اسے خداوند تعالیٰ کی طرف سے ابتلا سمجھ کر برداشت کر رہا تھا اس لیے جس قدر وہ طعن و ملامت مجھ پر زیادہ کرتے تھے میں خوش ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ اس طعن کا بوجھ اٹھانے سے میری وہ مشکل جس کے لیے میں مجاہدوں اور اس سفر کی مشقت اٹھا رہا تھا وہیں حل ہو گئی۔ اور اسی وقت مجھ کو معلوم ہو گیا کہ مشایخ جاہلوں کو اپنے درمیان کیوں رہنے دیتے ہیں اور ان کا بوجھ کس لیے اٹھاتے ہیں۔ نیز یہ کہ بعض بزرگوں نے ملامت کا طریقہ کیوں اختیار کیا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ایسے غیر اختیاری مجاہدات سے بعض اوقات وہ عقدے حل ہو جاتے ہیں جو دوسرے طریقوں سے حل نہیں ہوتے۔
آپ کا طریق
آپ کے نزدیک صوفی صفا سے ہے اور صفا کی اصل دل کو غیر اللہ سے منقطع اور دنیا سے خالی کرکے اللہ سے جوڑنا ہے نہ کہ کوئی خاص وضع قطع اختیار کرنا۔ آپ فرماتے ہیں کہ سالک کو تمام احوال میں علمِ شریعت کا پیرو کار ہونا چاہیے۔ چنانچہ آپ چالیس برس مسلسل سفر میں رہے لیکن کبھی نماز باجماعت ناغہ نہیں کی اور ہر جمعہ کی نماز کے لیے کسی نہ کسی قصبہ میں قیام فرمایا۔ آپ اپنا رہن سہن عام لوگوں کی طرح رکھتے تھے، صوفیوں کی ظاہری رسوم اور وضع قطع سے اپنے شیخ ابوالفضل محمد بن ختلی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ہمیشہ مجتنب رہے۔
لاہور میں آمد اور قیام
آپ غزنی میں لوگوں کی تعلیم و تربیت اور عبادت و ریاضت میں مشغول تھے کہ خواب میں پیر و مرشد حضرت شیخ ختلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اے فرزند تمہیں لاہور کی قطبیت پر مامور کیا جاتا ہے، اٹھو اور لاہور جاؤ۔ اس وقت وہاں آپ کے پیر بھائی حسین زنجانی اس خدمت پر مامور تھے۔ اس لیے آپ نے اپنے شیخ سے عرض کیا کہ وہاں حسین زنجانی موجود ہیں، میری کیا ضرورت ہے؟ارشاد ہوا کہ ہم سے حکمت دریافت نہ کرو اور بلاتوقف لاہور روانہ ہوجاؤ۔
آپ بحکم مرشد ۴۳۱ھ میں لاہور تشریف لائے، اس وقت لاہور کا نام لہانور تھا۔ یہ سلطان محمود غزنوی کے بیٹے سلطان مسعود غزنوی کا دور تھا۔ پنجاب اگرچہ غزنی حکومت کا حصہ تھا لیکن لاہور اس وقت ہندو تہذیب کے زیر اثر تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں طویل سفر کے بعد جب لاہور پہنچا تو رات کا وقت تھا اور لاہور کے دروازے بند ہوچکے تھے۔جب صبح ہوئی تو شہر کی جانب روانہ ہوئے، چند قدم ہی چلے تھے کہ سامنے سے ایک بڑا ہجوم آتا نظر آیا،معلوم ہوا کہ حضرت شیخ میراں حسین زنجانی کاجنازہ ہے۔ بے اختیار زبان مبارک سے نکلا اللہ شیخ کو جزائے خیر دے ،وہ واقعی روشن ضمیر تھے۔ لوگوں نے یہ جملہ سنا تو استفسار کیا،آپ نے انہیں پورا واقعہ سنا دیا۔جب لوگوں کو پتا چلا کہ آپ حضرت شیخ حسین زنجانی کے پیر بھائی ہیں تو انہوں نے جنازہ پڑھانے پر اصرار کیا۔ یوں آپ نے پہلے جنازہ پڑھایا اور پھر تدفین کے عمل سے فارغ ہوکر شہر کی جانب روانہ ہوئے اور لاہور میں مستقل سکونت اختیار فرمائی۔اس وقت لاہور میں مسلمانوں کو حکومت حاصل کیے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا،لہٰذا ہر طرف ہندومذہب کے پیرو کاروں اور پیشواؤں کا دور دورہ تھا،مگر آپ کی شفقت ومحبت سے بھرپور شخصیت بے شمار لوگوں کو کفر و شرک کی دلدل سے نکال کر صراطِ مستقیم کی جانب گامزن کرنے کا باعث بنی۔ لاہور میں سکونت اختیار کرنے کے بعد تبلیغ و اشاعت دین کے سلسلے میں آپ نے برصغیر ہند کے کئی علاقوں کا سفر بھی کیا۔
جہاں آج آپ کا مزار اقدس ہے اس وقت یہ جگہ دریائے راوی کے کنارے تھی، آپ اس جگہ قیام پذیر ہوئے اور سادہ سی مسجد و مدرسہ پر مشتمل خانقاہ کی بنیاد رکھی۔آپ نے مسجد کا رخ بالکل مغرب کی بجائے مائل بجنوب رکھا تو لاہور کے علماء معترض ہوئے۔ آپ نے ان کو مدعو فرمایا اور کہا کہ ایک ساعت کے لیے آنکھیں بند کریں، پھر آپ نے ایسی توجہ فرمائی کہ سامنے سے سب حجابات اٹھ گئے، سب نے دیکھا کہ خانہ کعبہ سامنے ہے اور مسجد بالکل صحیح رُخ پر ہے۔
ازدواجی زندگی
آپ کی ازدواجی زندگی کے بارے میں دو مختلف روایات ملتی ہیں پہلی یہ کہ کہ آپ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے مگر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد بیوی سے علیحدگی ہوگئی پھر تاحیات دوسری شادی نہ کی۔دوسری یہ کہ آپ کی دو شادیاں والدین نے کی تھیں، پہلی بیوی کی وفات کے بعد گیارہ سال تک رشتۂ ازدواج سے منسلک نہ رہے پھر دوسری شادی کی مگر ایک سال بعد یہ بیوی بھی فوت ہو گئیں۔
آپ کی تصانیف
آپ نے متعدد موضوعات پر تصانیف لکھیں لیکن ان میں سے کشف المحجوب کے سوا کوئی کتاب نہیں ملتی۔ آپ کو شعر وشاعری سے بھی دلچسپی تھی اور آپ کا دیوان بھی تھا۔ آ پ کے بیان کے مطابق آپ کی بہت سے تصانیف لوگوں نے مستعار لیں اور نام بدل کر اپنے نام سے شائع کرادیں۔ کشف المحجوب میں اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے لکھا ہے کہ بعض لوگ دوسروں کی تصانیف کو اپنے نام سے منسوب کرکے شائع کر دیتے ہیں، چنانچہ ایک شخص نے مجھ سے میرے شعروں کا دیوان دیکھنے کے لیے مانگا اور پھر واپس نہیں کیا اور اس سے میرانام مٹا کر کے اپنے نام سے پیش کر دیا، چونکہ دیوان کا یہی ایک نسخہ تھا جو وہ لے گیا، اس لیے میں کچھ نہ کر سکا اور اس نے میری محنت کو برباد کر دیا۔اسی طرح ایک اور شخص نے میری دوسری کتاب منہاج الدین جو میں نے تصوف پر تصنیف کی تھی مجھ سے مانگی اور اس پر سے میرا نام مٹا کر عوام الناس میں اسے اپنے نام سے شائع کر دی۔
آپ نے متعدد کتب تصنیف فرمائیں لیکن ’’ کشف المحجوب‘‘ کو بڑی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ کتاب فارسی زبان میں تصوف پر پہلی تصنیف ہے۔ یہ کتاب شریعت اور سلوک کے طالب علم کے لیے مرشد کا درجہ رکھتی ہے۔ کشف المحجوب کے بارے میں خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کا کوئی مرشد نہ ہو اُسے اِس کتاب کے مطالعہ کی برکت سے مرشد مل جائے گا۔کشف المحجوب میں آپ نے اپنی جن دوسری تصانیف کا تذکرہ کیا ہے وہ یہ ہیں:
منہاج الدین (یہ کتاب اصحابِ صفہ کے مناقب پر تھی)، الرعایتہ لحقوق اللہ، کتاب الفنا والبقا، اسرار الخلق المؤنات، بحرالقلوب ، کتاب البیان لاہل العیان، رسالہ در شرحِ کلامِ منصور الحلاج
ان کے علاوہ چند اوراق کا چھوٹا سا رسالہ ”کشف الاسرار“ بھی آپ کی قابل ِقدر تحریر ہے اور شائع ہو چکا ہے ۔شاعر مشرق علامہ اقبال آپ کے بارے میں کہتے ہیں ؎
سید ہجویر مخدوم اُمم
مرقد اُو پیر سنجر را حرم
خاک پنجاب از دم اُو زندہ گشت
صبح ما از مہر اُو تابندہ گشت
ہجویر کے سردار اُمتوں کے مخدوم ہیں
آپ کے مزار کو حضرت معین الدین چشتی نے حرم بنایا
آپ کی برکت سے پنجاب کی بنجر زمین زندہ و زرخیز ہو گئی
اور میری صبح بھی آپ کے سورج کی وجہ سے روشن ہو گئی
وصال
آپ کے وصال کے بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ علامہ غلام سرور لاہوری رحمۃ اللہ علیہ خزینۃ الاولیاء میں آپ کا تاریخ وصال ۴۶۴ھ یا ۴۶۶ ھ تحریر فرماتے ہیں۔
قبر مبارک
آپ کا مزار لاہور کے شاہی قلعہ کی مغربی سمت میں واقع ہے ۔آپ کا مزار سب سے پہلے غزنوی حکمران سلطان ابراہیم بن سلطان مسعود غزنوی نے بنوایا جبکہ خانقاہ کا فرش اور ڈیوڑھی جلال الدین اکبر بادشاہ کی تعمیر کردہ ہیں۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاًاس کی تعمیر و مرمت جاری رہی ۔اس وقت مزار اور مسجد میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔
خواجہ معین الدین اجمیری اور بابا فرید الدین گنج شکر نے کسب فیض کے لیے آپ کے مزار پر چلہ کشی کی۔ خواجہ معین الدین اجمیری نے چلہ پورا ہونے پر بوقت رخصت یہ شعر پڑھا ؎
گنج بخش فیضِ عالم مظہر نورِ خُدا
ناقصاں را پیرِ کامل، کاملاں را رہنما
اس کے بعد سے آپ کی شہرت گنج بخش کے نام سے ہوگئی۔داتا فارسی زبان میں سخی کو کہتے ہیں اور گنج بخش کے معنی بھی اس کے قریب ہی ہیں یعنی خزانہ دینے والا لہٰذا سخی کا لفظ ایک عام آدمی پر اطلاق کرنے میں بھی کوئی شرعی و عقلی قباحت نہیں چہ جائے کہ ایسی ہستی پر بولا جائے جس نے ساری زندگی قرآن وسنت کی تعلیمات اور علوم ومعارف کے خزانے مخلوق خدا میں تقسیم کیے۔