محمد تابش صدیقی
منتظم
اپنی بیٹی کی تھام کر انگلی
چیز لینے میں گھر سے نکلا تھا
ایک بچی نے راستہ روکا
وہ جو بچی تھی پانچ سالوں کی
کھوئی سرخی تھی اس کے گالوں کی
کالا چہرہ تو بال بکھرے تھے
اُس کے چہرے پہ سال بکھرے تھے
سُوکھی سُوکھی کلائی پر اُس نے
ایک چُوڑی کہیں سے چھوٹی سی
جانے کیسے پھنسا کے پہنی تھی
پاؤں ننگے قمیص میلی تھی
لٹکی گردن سے ایک تھیلی تھی
خالی خُولی خلا سی آنکھیں تھیں
جیسے کالی بلا سی آنکھیں تھیں
جیسے چابی بھرا کھلونا ہو
جیسے بوڑھا سا کوئی بونا ہو
اس نے کھولا ادا سے مٹھی کو
ننھی منی سی اُس ہتھیلی کو
میں نے دیکھا بڑی حقارت سے
ننھے ہونٹوں کی تھر تھراہٹ پہ
اِک مشینی صدا کے جھٹکے تھے
"" دس روپے کا سوال ہے بابا""
..............................................
میں نے نفرت سے دیکھ کر اُس کو
ہاتھ جھٹکا کہ جان چھوڑے وہ
وہ ہتھیلی وہیں پہ اٹکی تھی
وہ صدا بھی تھمی نہ اک پل کو
میری عادت ہے پیشے والوں کو
اک روپیہ کبھی نہیں دیتا
میں بھی ضِدی تھا وہ بھی ضِدی تھی
میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پہ
مرتے پچپن کی ہلکی لالی تھی
اس کے جُملے کے سارے لفظوں میں
لفظ ""بابا "" ذرا سا بھاری تھا
دس روپے تو وہ تیز کہتی تھی
لفظ ""بابا "" پہ ہلکی اٹکن تھی
.............................................
""دس روپے کا سوال ہے بابا ""
اُس کے بابا نے اس کو سِکھلایا
اُس کی اماں نے اس کو رٹوایا
دس روپے تو وہ تیز کہتی تھی
لفظ ""بابا "" پہ کیسی اٹکن تھی
...............................................
خالی خولی خلا سی آنکھوں نے
میرے چہرے کو غور سے دیکھا
اس کے قاتل سپاٹ چہرے پہ
ایک قاتل سی مسکراہٹ تھی
اس کے ہاتھوں کی انگلیاں مڑ کر
پھر سے مٹھی کی شکل میں آئیں
میں نے دیکھا تو اس کے ماتھے پہ
اک ""عبارت "" رواں سی لکھی تھی
""دس روپے کو سنبھال تُو بابا ""
................................................
ساری قبروں پہ دستکیں دینا
کام رَب نے مِرا لگایا ہے
رَب نے چھوٹی سی عمر میں مجھ کو
دیکھ کتنا بڑا بنایا ہے
................................................
اِن شریفوں سے اور خانوں سے
میرے جیسے ہزاروں بچوں کا
ایک لشکر سوال کرتا ہے
""یہ جو بچپن کا ایک موسم ہے ""
""سارے بچوں پہ کیوں نہیں آتا ""
................................................
میری مانو تو مان لو اتنا
ان مساجد میں اور تھانوں میں
ساری سڑکوں پہ سب مکانوں میں
خانقاہوں میں آستانوں میں
گلتے سڑتے غلیظ لاشے ہیں
................................................
روز قبروں پہ دستکیں دے کر
میرے جیسے ہزار ہا بچے
اپنا "" بابا "" تلاش کرتے ہیں
تم جو کہتے ہو پیشہ ور بچے
اپنے بچپن کی آڑ میں عابی
مال و زر کو تلاش کرتے ہیں
آج سن لو کہ بات اتنی ہے
صدیوں پہلے کہیں پہ کھویا تھا
اپنے ""بابا"" عمر رضی اللہ عنہ کو ہم سب نے
ایسے "" بابا "" کہ جن کے سائے میں
میرے جیسی کسی بھی بچی کا
کوئی بچپن نہیں مرا گھٹ کر
................................................
""دس روپے کا سوال ہے بابا ""
یہ صدا تو فقط بہانہ ہے
ہم کو ""بابا"" کے پاس جانا ہے
دس روپے کو سنبھال تُو بابا
ہم کو ""بابا"" کے پاس جانا ہے
.................
عابی مکھنوی
چیز لینے میں گھر سے نکلا تھا
ایک بچی نے راستہ روکا
وہ جو بچی تھی پانچ سالوں کی
کھوئی سرخی تھی اس کے گالوں کی
کالا چہرہ تو بال بکھرے تھے
اُس کے چہرے پہ سال بکھرے تھے
سُوکھی سُوکھی کلائی پر اُس نے
ایک چُوڑی کہیں سے چھوٹی سی
جانے کیسے پھنسا کے پہنی تھی
پاؤں ننگے قمیص میلی تھی
لٹکی گردن سے ایک تھیلی تھی
خالی خُولی خلا سی آنکھیں تھیں
جیسے کالی بلا سی آنکھیں تھیں
جیسے چابی بھرا کھلونا ہو
جیسے بوڑھا سا کوئی بونا ہو
اس نے کھولا ادا سے مٹھی کو
ننھی منی سی اُس ہتھیلی کو
میں نے دیکھا بڑی حقارت سے
ننھے ہونٹوں کی تھر تھراہٹ پہ
اِک مشینی صدا کے جھٹکے تھے
"" دس روپے کا سوال ہے بابا""
..............................................
میں نے نفرت سے دیکھ کر اُس کو
ہاتھ جھٹکا کہ جان چھوڑے وہ
وہ ہتھیلی وہیں پہ اٹکی تھی
وہ صدا بھی تھمی نہ اک پل کو
میری عادت ہے پیشے والوں کو
اک روپیہ کبھی نہیں دیتا
میں بھی ضِدی تھا وہ بھی ضِدی تھی
میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پہ
مرتے پچپن کی ہلکی لالی تھی
اس کے جُملے کے سارے لفظوں میں
لفظ ""بابا "" ذرا سا بھاری تھا
دس روپے تو وہ تیز کہتی تھی
لفظ ""بابا "" پہ ہلکی اٹکن تھی
.............................................
""دس روپے کا سوال ہے بابا ""
اُس کے بابا نے اس کو سِکھلایا
اُس کی اماں نے اس کو رٹوایا
دس روپے تو وہ تیز کہتی تھی
لفظ ""بابا "" پہ کیسی اٹکن تھی
...............................................
خالی خولی خلا سی آنکھوں نے
میرے چہرے کو غور سے دیکھا
اس کے قاتل سپاٹ چہرے پہ
ایک قاتل سی مسکراہٹ تھی
اس کے ہاتھوں کی انگلیاں مڑ کر
پھر سے مٹھی کی شکل میں آئیں
میں نے دیکھا تو اس کے ماتھے پہ
اک ""عبارت "" رواں سی لکھی تھی
""دس روپے کو سنبھال تُو بابا ""
................................................
ساری قبروں پہ دستکیں دینا
کام رَب نے مِرا لگایا ہے
رَب نے چھوٹی سی عمر میں مجھ کو
دیکھ کتنا بڑا بنایا ہے
................................................
اِن شریفوں سے اور خانوں سے
میرے جیسے ہزاروں بچوں کا
ایک لشکر سوال کرتا ہے
""یہ جو بچپن کا ایک موسم ہے ""
""سارے بچوں پہ کیوں نہیں آتا ""
................................................
میری مانو تو مان لو اتنا
ان مساجد میں اور تھانوں میں
ساری سڑکوں پہ سب مکانوں میں
خانقاہوں میں آستانوں میں
گلتے سڑتے غلیظ لاشے ہیں
................................................
روز قبروں پہ دستکیں دے کر
میرے جیسے ہزار ہا بچے
اپنا "" بابا "" تلاش کرتے ہیں
تم جو کہتے ہو پیشہ ور بچے
اپنے بچپن کی آڑ میں عابی
مال و زر کو تلاش کرتے ہیں
آج سن لو کہ بات اتنی ہے
صدیوں پہلے کہیں پہ کھویا تھا
اپنے ""بابا"" عمر رضی اللہ عنہ کو ہم سب نے
ایسے "" بابا "" کہ جن کے سائے میں
میرے جیسی کسی بھی بچی کا
کوئی بچپن نہیں مرا گھٹ کر
................................................
""دس روپے کا سوال ہے بابا ""
یہ صدا تو فقط بہانہ ہے
ہم کو ""بابا"" کے پاس جانا ہے
دس روپے کو سنبھال تُو بابا
ہم کو ""بابا"" کے پاس جانا ہے
.................
عابی مکھنوی