متلاشی
محفلین
والد صاحب بابری کی مسجد کی شہادت پر ایک نظم لکھی تھی۔۔ وہ یارانِ اردو محفل کی خدمت میں پیش ہے ۔۔۔!
ہاں اے فغانِ بابری ، پرسوز ہے تیرا بیاں
دل کے افق پر چھا رہا ہے تری آہوں کا دھواں
کیا تیرے اونچے گنبدوں پر کفر نے یلغار کی
توہی بتا یہ کیا ہوا اے سجدہ گاہِ غازیاں
محراب تھی ، منبر تھا، گنبد تھے تیرے مینارتھے
اک پرشکن تہذیب کا چہرہ تھے ترے جسم و جاں
صدیوں تلک تیری زمیں پر عشق نے سجدے کیے
تو ارتکازِ عشق کی اک داستاں در داستاں
تیرا شکوہ کھویا گیا، میرا بھرم جاتا رہا
تو تھی شکوۂِ ملتِ اسلامیہ کی پاسباں
یہ دل ابھی بھولا نہیں تھا قبلۂِ اول کا دکھ
کیسے مٹاؤں گا میں اب ان تازہ زخموں کے نشاں
تیرے نمازی آج تیرے صحن میں دیکھے نہیں
گونجی نہیں ہے آج بھی تیرے مؤذن کی اذاں
جانے کہاں پر رہ گئے ہیں کوئی بھی پہنچا نہیں
وہ تیرا بابر، ترا عالمگیر، تیرا شاہ جہاں
(یہ نظم ایک ہی نشست میں مکمل ہوئی)
(والد گرامی جناب نصراللہ مہر صاحب)
ہاں اے فغانِ بابری ، پرسوز ہے تیرا بیاں
دل کے افق پر چھا رہا ہے تری آہوں کا دھواں
کیا تیرے اونچے گنبدوں پر کفر نے یلغار کی
توہی بتا یہ کیا ہوا اے سجدہ گاہِ غازیاں
محراب تھی ، منبر تھا، گنبد تھے تیرے مینارتھے
اک پرشکن تہذیب کا چہرہ تھے ترے جسم و جاں
صدیوں تلک تیری زمیں پر عشق نے سجدے کیے
تو ارتکازِ عشق کی اک داستاں در داستاں
تیرا شکوہ کھویا گیا، میرا بھرم جاتا رہا
تو تھی شکوۂِ ملتِ اسلامیہ کی پاسباں
یہ دل ابھی بھولا نہیں تھا قبلۂِ اول کا دکھ
کیسے مٹاؤں گا میں اب ان تازہ زخموں کے نشاں
تیرے نمازی آج تیرے صحن میں دیکھے نہیں
گونجی نہیں ہے آج بھی تیرے مؤذن کی اذاں
جانے کہاں پر رہ گئے ہیں کوئی بھی پہنچا نہیں
وہ تیرا بابر، ترا عالمگیر، تیرا شاہ جہاں
(یہ نظم ایک ہی نشست میں مکمل ہوئی)
(والد گرامی جناب نصراللہ مہر صاحب)