ابن رضا
لائبریرین
تھک گئی آہ مِری عرش پہ دیتے دستک
بابِ ایجابِ دُعا مجھ پہ کُھلے گا کب تک؟
اَوَّل اَوَّل تو مری آنکھ تھی ساون ساون
محوِ گریہ ہے مرے حال پہ اب چشمِ فلک
آزمائش تھی مِرے ضبط کی مقصود جسے
آ کے رکھے وہی زخموں پہ مِرے مشتِ نمک
لوگ اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ خوش باش ہوں میں
رُخ پہ رہتی ہے تری یاد سے اک ایسی دمک
دشتِ دل درد کے پھولوں سے جو بھر جاتا ہے
تب کہیں جا کے رضا اٹھتی ہے شعروں سے مہک
ستمبر 30، 2014
آخری تدوین: