بات ایسی ہوئی ہے کیا صاحب؟ - سرور عالم راز سرور

کاشفی

محفلین
غزل
(سرور عالم راز سرور)

بات ایسی ہوئی ہے کیا صاحب؟
ہو گئے آپ کیوں خفا صاحب؟

کچھ تو کہئے کہاں کی یہ آخر
لگ گئی آپ کو ہوا صاحب؟

خامشی اور ایسی خاموشی!
کب محبت میں‌ ہے روا صاحب؟

ہائے یہ کیسی بے نیازی ہے؟
رنگِ ہستی بکھر گیا صاحب!

کیا کوئی مجھ سے بدگمانی ہے؟
توبہ توبہ، خدا خدا! صاحب!

یاد ہے آپ کو کہ میں ہوں کون؟
آشنا اور باوفا صاحب!

مجھ سے کوئی اگر شکایت ہے
کیجئے آپ برملا صاحب!

چھوڑیے اب معاف کردیجئے
کچھ اگر ہو کہا سنا صاحب

دوستی اور آشتی کے سوا
اس جہاں میں رکھا ہے کیا صاحب؟

آپ دل میں ہیں، آپ آنکھوں میں
میری صورت ہے آئینہ صاحب

رہ روِ راہِ آشنائی ہوں
گرچہ ہوں میں شکستہ پا صاحب

دردمندی کے اور محبت کے
وعدے سب کیجئے وفا صاحب

میں بھی ہو جاؤں آپ ہی جیسا
میرے حق میں‌ کریں دعا صاحب

بہر تجدیدِ شوق سرور کو
یاد کرنا ہے کیا برا صاحب؟
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ صاحب! بہت عمدہ غزل ہے۔

سرور راز صاحب کی زیادہ تر غزلیں استادانہ اور شاید اسی وجہ سے ثقالت کی طرف مائل ہوتی ہیں لیکن چھوٹی بحر کی یہ غزل بہت خوب ہے۔

شکریہ کاشفی بھائی!
 

مغزل

محفلین
اچھا ، ۔۔ تو پھر ٹھیک ہے ، میں سمجھا نہ تھا اس لیے پوچھ لیا کہ یہ میمی کیا ہوتا ہے ، کہیں فراعین والی ممی تو نہیں لکھ دیا ، ہااہاہ
 
Top