ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
بات جو دل میں نہیں لب سے ادا کیسے کروں
میں خفا تو ہوگیا اُس سے ، گلہ کیسے کروں
دل کے ٹوٹے آئنے میں عکس ہے اک خواب کا
قیدِ رنگ و روپ سے اُس کو رہا کیسے کروں
سوچتا ہوں اک ہجومِ صد بلا کے درمیاں
عافیت کے خواب کو میں واقعہ کیسے کروں
روز و شب کے گنبدِ بے دَر سے مشکل ہے فرار
دَر اگر مل جائے بھی تو حوصلہ کیسے کروں
راہ کوئی روح کے اندر کُھلے تو بات ہے
میں کسی کے نقشِ پا کو رہنما کیسے کروں
ہم نشیں میرے ابھی تک ہیں خیالِ فرد فرد
ہم نظر میں کر بھی لوں تو ہمنوا کیسے کروں
زندگی سے وہ گیا اور زندگی جاتی رہی
مختصر سے حرفِ غم کو مرثیہ کیسے کروں
ہر گھڑی دل پر مرے دستک نئی خواہش کی ہے
اسقدر جب شور ہو ، تجھ کو صدا کیسے کروں
شرم آتی ہے مجھےحاجت روا کے سامنے
خواہشوں کی فکر کو حرفِ دعا کیسے کروں
دور کچھ بھی تو نہیں وہ ، ہے مری مشکل یہی
دو قدم کا فاصلہ ہے ابتدا کیسے کروں
کس طرح اتنی محبت اب نبھاؤں میں ظہیر
اتنا قرضِ دوستی آخر ادا کیسے کروں
ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۴
فاتح کاشف اختر محمد تابش صدیقی سید عاطف علی
میں خفا تو ہوگیا اُس سے ، گلہ کیسے کروں
دل کے ٹوٹے آئنے میں عکس ہے اک خواب کا
قیدِ رنگ و روپ سے اُس کو رہا کیسے کروں
سوچتا ہوں اک ہجومِ صد بلا کے درمیاں
عافیت کے خواب کو میں واقعہ کیسے کروں
روز و شب کے گنبدِ بے دَر سے مشکل ہے فرار
دَر اگر مل جائے بھی تو حوصلہ کیسے کروں
راہ کوئی روح کے اندر کُھلے تو بات ہے
میں کسی کے نقشِ پا کو رہنما کیسے کروں
ہم نشیں میرے ابھی تک ہیں خیالِ فرد فرد
ہم نظر میں کر بھی لوں تو ہمنوا کیسے کروں
زندگی سے وہ گیا اور زندگی جاتی رہی
مختصر سے حرفِ غم کو مرثیہ کیسے کروں
ہر گھڑی دل پر مرے دستک نئی خواہش کی ہے
اسقدر جب شور ہو ، تجھ کو صدا کیسے کروں
شرم آتی ہے مجھےحاجت روا کے سامنے
خواہشوں کی فکر کو حرفِ دعا کیسے کروں
دور کچھ بھی تو نہیں وہ ، ہے مری مشکل یہی
دو قدم کا فاصلہ ہے ابتدا کیسے کروں
کس طرح اتنی محبت اب نبھاؤں میں ظہیر
اتنا قرضِ دوستی آخر ادا کیسے کروں
ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۴
فاتح کاشف اختر محمد تابش صدیقی سید عاطف علی