غزل
بات خود سے ہی کچھ بنا لی جائے
چپ سے کیوں خود کو یوں سزا دی جائے
کون کرتا ہے احتراز اگر
شہرت آسانی سے کما لی جائے
اور جگہوں پہ چیخنا ہے فضول
اُس کے در پر ہی بس صدا کی جائے
ہوش میں ہی تو سب نظارے ہیں
زندگی غفلتوں میں کیا جی جائے
علم کی روشنی ہو ہر جانب
ہاتھ اٹھائیں تو یہ دعا کی جائے
اے خدا ! آگہی کی سڑکوں پر
میری گاڑی ہمیشہ جاتی جائے
ہر گھڑی خود تو ہو رہی ہے فنا
میری بھی زندگی گھٹاتی جائے
غم ہو جتنا بھی بھول کر غم کو
ایک پل بھی خوشی منا لی جائے
*****
18/05/2018
السلام علیکم، یہ غزل بابا (الف عین) سے اصلاح لینے کے بعد پیش کی گئی ہے، شکریہ