بادل، ریت، ہوا اور میں

بادل، ریت، ہوا اور میں
::::::::::::::::::::::::::
بہت دور پار کے سنگلاخ پہاڑوں سے نکلی ہوئی ایک پُرشور ندی، اپنی راہ میں آنے والی ہر قسم کی رکاوٹیں عبور کرتی، چٹانوں کے درمیان سے اپنا رستہ بناتی، راہ میں قدم بوسی کے لئے حاضر ہونے والے چشموں، جھرنوں، آبشاروں کو اپنے اندر سموتی، کھیتوں کھلیانوں کو سیراب کرتے ہوئے ایک دریا کے روپ میں ڈھلتی، اپنی دھن میں مگن چلی جارہی تھی۔ ایک تند و تیز رو سے ایک وسیع و عریض اور خاموش دریا کے ٹھہراؤ تک کی اپنی کایا کلپ سے یکسر غافل، قریہ قریہ سیر کرتی یکایک ایک خشک لق و دق صحرا کے کناروں تک آن پہنچی۔۔۔۔
اپنے سیلِ ہمہ گیر ہونے کا زعم اتنا طاقت ور ہوچکا تھا کہ ریت کے ان کمزور اور نامحکم ذروں کو نگاہِ کم سے دیکھتے ہوئے بڑھتی چلی آئی۔۔۔۔
لیکن یہ کیا۔۔۔ کیسا عجیب سا احساس ہے۔ یوں جیسے اپنا آپ بکھر رہا ہو، ریت کے ان حقیر ذروں میں آخر کیا کشش ہے کہ میرا آبِ حیات، سفر جاری رکھنے کی بجائے انہی کی آغوش میں پناہ لینے، جذب ہوجانے ، مٹ جانے پر مائل ہے۔۔۔ شائد یہ سفر کی تھکن ہے۔ لیکن نہیں۔۔۔ مجھے تو اپنی منزل تک پہنچنا ہے۔ اپنے سمندر سے ملنا ہے۔ وہی تو میرا کنارہ ہے۔۔۔
ندی صحرا کی دہلیز پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دینے کے تصور سے خائف ہوکر اندیشوں اور تفکرات میں گھر گئی۔۔۔
اچانک ہوا سرسرانے لگی اور چاروں جانب سے سیٹیاں بجنے لگیں۔ ندی نے جب کان لگائے تو یوں لگا جیسے اس شور میں کوئی سرگوشی گونج رہی ہو۔ کوئی یہ کہہ رہا تھا:
" ہوائیں مجھے ہر روز پار کرتی پھرتی ہیں، ۔ تم بھی کرسکتی ہو۔ ایک کم زور سی ندی بھی صحرا کے پار اتر سکتی ہے"۔
لیکن ہوا تو تمہاری دسترس سے دور اوپر ہی اوپر اڑتی ہے، جبکہ میں تمہاری سطح پر رینگ رہی ہوں۔ لمحہ لمحہ ریت میں جذب ہورہی ہوں۔ اگر میں رک گئی توتمہاری یہ بے کراں ریت مجھے نگل جائے گی۔ مجھے اپنے وجود کی پوری طاقت لگا کر یہ سفر جاری رکھنا ہوگا، ورنہ میرا وجود یہیں فنا ہوجائے گا۔
" لیکن اگر تم مزید اسی طرح چلتی رہیں، اور اپنے اب تک کے اندازِ سفر کو جاری رکھا تو بہت جلد میری ریت میں جذب ہوکر، دم توڑ دو گی ، یا پھر لت پت ہوکر ایک دلدل کی شکل اختیار کرلو گی"۔
پھر میں کیا کروں؟؟؟
" اپنے آپ کو ہوا کے سپرد کردو، اور اسے یہ موقع دو کہ تمہیں پار لے جائے۔ تمہیں تمہاری منزل تک پہنچادے"۔
ہرگز نہیں۔۔۔میں ایسا کببھی بھی نہیں کرسکتی۔ مجھے ایسا تجربہ کبھی نہیں ہوا اور نہ ہی کرنا چاہوں گی۔ میں اپنی انفرادیت سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتی۔ اگر میری یہ انفرادیت بھی کھو گئی تو میرے پاس کیا بچے گا۔ اور خدا جانے یہ مجھے دوبارہ ملے گی بھی یا نہیں۔
" یہ کام ہوا ہی کرسکتی ہے۔ تمہیں اوپر لے کر جانا، صحرا کے پار جاکر واپس تمہیں نیچے اتار دینا، یہ اس کے لئے کچھ مشکل نہیں۔ تم اپنا آپ ہوا کے سپرد کرکے تو دیکھو۔ بارش بن کر برس کر دوبارہ ایک ندی کی صورت اختیار کرلو گی "۔
مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ یہ سب سچ ہے؟
" یہ سچ ہی ہے۔ اور اگر تمہیں اس پر یقین نہیں تو تم ایک کیچڑ سے زیادہ اور کچھ نہیں بن سکتیں۔ اور کیچڑ بننے میں بھی ایک مدت لگتی ہے۔ اس صورت میں بھی تمہارا انجام ایک ندی جیسا تو نہ ہوا پھر بھی"۔
لیکن کیا میں ویسی ہی ندی بن پاؤں گی جیسی اب ہوں؟ کیا میں وہی رہوں گی؟
سرگوشی اور تیز ہوگئی۔۔۔
" دونوں صورتوں میں تم وہ نہیں رہو گی جو تم اب ہو۔ تم ہر لمحہ ایک نیا وجود حاصل کرتی آئی ہو، تم پل پل ایک نئی ندی کی صورت اختیار کرتی ہو۔ تم اپنے وجود کا ایک حصہ اپنی راہ میں ہر جگہ چھوڑتی جاتی ہو لیکن وہ حصہ جس سے تم ایک ندی کی صورت اختیار کرسکو، تم سے کبھی جدا نہیں ہوتا۔ وہ اس تسلسل میں ہمیشہ تمیہارے شاملِ حال رہتا ہے"۔
ریت کی یہ سرگوشیاں ندی کے اندر گونجنے لگیں اور کچھ کچھ یاد آنے لگا، کہ اپنے اس سفر میں وہ کس طرح پہلے بھی کئی جگہ ہوا کے ہمرکاب رہتی آئی ہے۔ یاد آنے لگا کہ کہاں کہاں وہ اور ہوا ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ایک دوسرے کی بانہون میں بانہیں ڈالے اٹھکیلیاں کرتے آئے ہیں۔ شائد یہی حقیقت ہے ۔ بظاہر لگتا تو نہیں ۔۔۔لیکن شائد۔
ندی نے ڈرتے ڈرتے آہستگی سے اپنے بخارات ہوا میں اچھال دئیے اور وہ ہوا کی پھیلی ہوئی بانہوں کے ساتھ ہم کنار ہوکر اس کے نرم دوش پر سوار ہوکر بلند ہونے لگے۔ اور دور بہت دور واقع پہاڑوں کے پاس جاکر ہوا نے بہت نرمی سے انہیں اتارنا شروع کردیا۔
چونکہ اس مرتبہ ندی کو شکوک و شبہات لاحق ہوئے تھے، یہی وجہ تھی کہ اب کی بار ندی کو ہوا کا یہ ساتھ اچھی طرح یاد رہا۔ اور یہ وارداتِ سفر اس کے شعور کا حصہ بن گئی۔
ندی گنگنانے لگی۔۔۔۔ہاں اب مجھے پتہ چلا کہ میں کون ہوں !!!!!
۔۔۔۔۔۔محمود احمد غزنوی۔۔۔۔۔۔(ماخوذ از Tale of The Sands)
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
" اپنے آپ کو ہوا کے سپرد کردو، اور اسے یہ موقع دو کہ تمہیں پار لے جائے۔ تمہیں تمہاری منزل تک پہنچادے"۔

" یہ کام ہوا ہی کرسکتی ہے۔ تمہیں اوپر لے کر جانا، صحرا کے پار جاکر واپس تمہیں نیچے اتار دینا، یہ اس کے لئے کچھ مشکل نہیں۔ تم اپنا آپ ہوا کے سپرد کرکے تو دیکھو۔ بارش بن کر برس کر دوبارہ ایک ندی کی صورت اختیار کرلو گی "۔

" دونوں صورتوں میں تم وہ نہیں رہو گی جو تم اب ہو۔ تم ہر لمحہ ایک نیا وجود حاصل کرتی آئی ہو، تم پل پل ایک نئی ندی کی صورت اختیار کرتی ہو۔ تم اپنے وجود کا ایک حصہ اپنی راہ میں ہر جگہ چھوڑتی جاتی ہو لیکن وہ حصہ جس سے تم ایک ندی کی صورت اختیار کرسکو، تم سے کبھی جدا نہیں ہوتا۔ وہ اس تسلسل میں ہمیشہ تمیہارے شاملِ حال رہتا ہے"۔

چونکہ اس مرتبہ ندی کو شکوک و شبہات لاحق ہوئے تھے، یہی وجہ تھی کہ اب کی بار ندی کو ہوا کا یہ ساتھ اچھی طرح یاد رہا۔ اور یہ وارداتِ سفر اس کے شعور کا حصہ بن گئی۔
ندی گنگنانے لگی۔۔۔۔ہاں اب مجھے پتہ چلا کہ میں کون ہوں !!!!!

بلاشبہ انسان شکوک و شبہات سے ہوتا یقین کی منزل تک پہنچتا ہے ۔ نفسیاتی کشمکش اور انسان کو اپنی پہچان کراتی ایک اچھی تحریر ۔۔ ہوا ہی سب کچھ ہے یا دوسری صورت میں علم ہی سب کچھ ہے وہ علم جو نور کی جانب متوجہ کرتا ہے۔ انسان ہر پل نیا بنتا ہے ۔ تخریب و تعمیر ۔۔۔۔کائنات کا اصول ۔ ڈھیروں داد
 
Top