سید فصیح احمد
لائبریرین
ایک کم سِن بچی، نہ جانے کب سے گھر کے آنگن میں گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی۔ وہ اپنے ننھے ہاتھوں میں چند کپڑے کے چھوٹے ٹکڑے اور باریک بانس کے تِنکے سنبھالے ایک چھوٹا سا کمرہ کھڑا کرنے میں مصروف تھی۔ پیروں میں گھر کے کسی بڑے کی چپلیں پہنی ہوئی تھیں۔ پسینہ اس کے ننھے بدن سے بہہ کر ان چپلوں میں اکٹھا ہو رہا تھا۔ مگر اسے تو جیسے اس ادھورے کمرے کے علاوہ کسی بات کا ہوش نہ تھا۔ پاس ہی چھوٹے چھوٹے کھلونے برتنوں کی شکل کے پڑے تھے۔ اپنی ٹانگوں اور سینے کے درمیان ایک گڑیا بھی دبا رکھی تھی۔ جب اس کی آنکھیں پسینے کے بوجھ سے بند ہونے لگتیں تو گلے میں پڑے باریک سے دوپٹے سے چہرا صاف کر لیتی۔ اسی اثنا میں اچانک کہیں سے ایک سائے کا ٹکڑا اس پر آ کر ٹھہر گیا۔ جیسے اوپر والے نے کوئی بادل صرف اسی پر سائے کے لیئے خصوصاً بھیجا ہو۔ سائے نے اس کے معصوم وجود کو اپنی پناہ میں لے لیا۔ لیکن وہ تو جیسے کسی اور دنیا میں تھی۔ کچھ ساعتوں کے بعد ایک آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
" کیا کر رہی ہے میری پری؟ "
" کل میری گُڑیا کی شادی ہے، اس کا گھر بنا رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہ بن ہی نہیں رہا! "
لہجے میں اکتاہٹ اور عزم دونوں موجود تھے
یہ کہہ کرجب اس کم سِن نے سر گھُما کر سائے کی جانب دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس کی ماں اپنے دونوں بازو پھیلائے اس پر سائیہ کیئے کھڑی تھی!